ملی مسلم لیگ دہشتگرد تنظیموں کی امریکی فہرست میں شامل


اسلام آباد: امریکا نے دو پاکستانی جماعتوں ملی مسلم لیگ (ایم ایم ایل) اور تحریک آزادی کشمیرکو انتہا پسند تنظیم لشکر طیبہ کا حصہ قرار دیتے ہوئے دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کر لیا۔

امریکا نے لشکر طیبہ کو 2001 میں غیر ملکی اور عالمی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کیا تھا۔ اس اقدام کے بعد سے لشکر طیبہ سے منسلک تمام جماعتوں اور رہنماؤں کو پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

امریکی محکمہ خزانہ کی جانب سے ملی مسلم لیگ کے صدر سیف اللہ خالد سمیت سات رہنماؤں کو دہشت گردوں کی خصوصی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ ان افراد میں فیاض احمد، مزمل اقبال ہاشمی، محمد حارث ڈار، تابش قیوم، فیصل ندیم اور محمد احسان شامل ہیں۔

محکمہ انسداد دہشت گردی کے رکن نیتھن اے سیلز کا کہنا تھا کہ لشکر طیبہ پاکستان میں مسلسل فعال ہے۔ اس جماعت سے منسلک لوگ نہ صرف عوامی ریلیاں منعقد کرتے ہیں بلکہ چندہ بھی اکٹھا کرتے ہیں۔

نیتھن اے سیلز نے مزید کہا کہ لشکر طیبہ دہشت گرد حملوں کی منصوبہ بندی کرتی اور تربیت دیتی ہے۔ لشکر طیبہ جس نام سے بھی سامنے آئے وہ ایک انتہا پسند دہشت گرد تنظیم ہی رہے گی۔

https://pbs.twimg.com/profile_images/711074560242802688/pBaHBAPL_400x400.jpgانھوں نے واضح کیا ہے کہ ان اقدامات کا مقصد لشکر طیبہ کا اصلی چہرہ چھپانے اور پابندیوں سے بچنے کی کوششوں کو ناکام بنانا ہے۔ اپنا اثر و رسوخ قائم کرنے کے لئے جب تک یہ جماعت انتہاپسندی کا راستہ نہیں چھوڑے گی تب تک اسے سیاست کا حصہ نہیں بننے دیا جائے گا۔

تحریک آزادی کشمیر اور ملی مسلم لیگ کا قیام 2017 میں عمل میں آیا تھا۔ اسی سال ملی مسلم لیگ کو دہشت گرد تنطیموں کی فہرست میں شامل کرنے کی قرارداد بھارت امریکا کی مشترکہ کانفرنس میں پیش کی گئی تھی۔

ایم ایم ایل کی جانب سے خود کو بطور سیاسی جماعت رجسٹر کرنے کی درخواست الیکشن کمیشن آف پاکستان نے مسترد کردی تھی۔ ای سی پی نے ایم ایم ایل پر وزارتِ داخلہ سے این او سی کی شرط عائد کی تھی۔تاہم وزارت داخلہ نے ایم ایم ایل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس کا تعلق کالعدم تنظیموں لشکر طیبہ اور جماعت الدعوۃ سے ہے۔ جس کے بانی حافظ سعید کو دہشت گرد قرار دے کر ان کے سر پر ایک کروڑ ڈالر کا انعام بھی رکھا گیا ہے۔

امریکی محکمہ خزانہ نے خبردار کیا ہے کہ ملی مسلم لیگ کی مالی امداد کرنے والی جماعتیں اور افراد بھی اس طرح کی پابندیوں کا شکار ہوسکتے ہیں۔


متعلقہ خبریں