کورونا وائرس کے پاکستانی معیشت پر کیا اثرات ہوں گے؟


عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کورونا وائرس کو عالمی سطح پر ہیلتھ ایمرجنسی قرار دیا ہےجس کی وجہ حالیہ ہفتوں میں پوری دنیا میں ہونے والے حیرت انگیز واقعات سامنے آنا ہے۔ اگرچہ اس وائرس کے پھیلنے سے انسانی جانوں کے نقصان میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے لیکن اس کے معاشی اثرات پر تبادلہ خیال کرنا بھی ضروری ہے۔

مقامی اخبار میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں، آئی ایم ایف کے مشن نے چینی معیشت کو ہونے والے نقصان کاپاکستانی معیشت پر منفی اثرات کی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ آئی ایم ایف نے رواں مالی سال کے دوران پاکستان کی جی ڈی پی کی شرح نمو 2.4 فیصد اور افراط زر لگ بھگ 11 سے 12 فیصد کے قریب رہنے کی پیش گوئی کی ہے۔

یاد رہے کہ اس وبا کے پھیلنے سے 62 ارب ڈالر کے چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے منصوبے پر دوسرے مرحلے کے دوران تعمیراتی کام تاخیر کا شکار ہو چکا ہے۔

پاک چین تجارتی معاہدے کے مطابق پاکستان کی مقامی مارکیٹ میں دستیاب نصف سے زائد مصنوعات چین سے لگ بھگ 17 بلین ڈالر کی قیمت پر درآمد کی جاتی ہیں جبکہ پاکستان چین کو سالانہ تقریباً 2 ارب ڈالر مالیت کا سامان برآمد کرتا ہے۔ ان اعدادوشمار کے پیش نظر، اس وائرس سے ہونے والے معاشی اثرات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔

ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ کورونا وائرس پھیلنے سے پاکستان کی معیشت کو 16.387 ملین ڈالر سے لے کر 4.95 بلین ڈالر یا جی ڈی پی کے 0.01 فیصد سے 1.57 فیصد تک کا نقصان ہوسکتا ہے۔ اقوام متحدہ کا تخمینہ ہے کہ وائرس کی وجہ سے بین الاقوامی سیاحت تین فیصد کم ہو گی جس کے نتیجے میں عالمی سطح پر 50 بلین ڈالر تک کا نقصان ہوسکتا ہے۔

پاکستان بیورو آف شماریات (پی بی ایس) کے مطابق جولائی 2019 سے لے کر فروری 2020 کے دوران تجارت میں 26 فیصد تک بہتری آئی ہے۔ اس عرصے کے دوران برآمدات میں 3.65 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے جبکہ درآمدات میں 14.06 فیصد کمی آئی ہے۔

اس صورتحال میں ایک مثبت بات یہ ہے کہ اقتصادی تخمینوں کے مطابق، چینی کرنسی میں 3-5 فیصد کی کمی متوقع ہے، جس کے نتیجے میں پاکستان کے درآمدی بلوں میں کچھ کمی واقع ہو سکتی ہے۔ مزید یہ کہ ملک کو کورونا وائرس کے پیشِ نظر مکمل یا جزوی طور پر بند کر دینے سے معیشت کے مختلف شعبوں میں 12.3 ملین سے 18.5 ملین کے درمیان تعطل کی توقع ہے۔

پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس سے تعلق رکھنے والے تین نامور ماہر معاشیات، ڈاکٹر ناصر، نسیم فراز، اور محمود خالد نے ایک ریسرچ پیپر میں ان کے نتائج کا خاکہ پیش کیا جس کا عنوان؛ سیکٹورل انالیسز آف دی ولنیریبل امپلائیڈ کوویڈ۔19 اینڈ پاکستان لیبر مارکیٹ، ہے۔ اس تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ پر قابو پانے کے لئے پاکستان کے تمام صوبے لاک ڈاؤن میں ہیں۔

اس پیپر میں تین مراحل پر روشنی ڈالی گئی ہے جس کے ذریعے وائرس کے معیشت پر ہونے والے اثرات کو سمجھا جاسکتا ہے۔ اس کے مطابق پہلے مرحلے کے اوسط ماہانہ نقصان کا تخمینہ 22 ارب روپے، دوسرے مرحلے کا 187 ارب روپے جبکہ تیسرے مرحلے کا 261 ارب روپے ہے۔

تحقیق میں کہا گیا ہے کہ پہلے مرحلے میں تعلیم، ہوٹل، ہول سیل اور خوردہ تجارت کے شعبے سخت متاثر ہوں گے۔ یہی شعبے تینوں مراحل میں بھی بہت زیادہ غیرمحفوظ ہیں۔ ان شعبوں میں ملازمت میں کمی اور ختم ہو جانے کا آغاز پہلے ہی ہوچکا ہے۔ دوسرے مرحلے میں زیادہ متاثر ہونے والے شعبوں میں ہول سیل اور خوردہ تجارت، زراعت، مینوفیکچرنگ، نقل و حمل اور مواصلات شامل ہیں۔ ناقص روزگار کرنے والے اور روزانہ مزدوری کرنے والا مزدور طبقہ اس لاک ڈاؤن سے ذیادہ متاثر ہوں گے۔

تاریخ بتاتی ہے کہ موذی بیماریوں سے پوری دنیا میں صحت عامہ کا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے۔ ان کے اثرات پوری دنیا میں بڑے پیمانے پر محسوس کیے جاتے ہیں۔ یہ نہ صرف افراد کی صحت کو براہ راست متاثر کرتے ہیں بلکہ معاشروں، معیشتوں اور سیاسی نظاموں پر بھی بعض اوقات کئی سالوں تک اثر انداز ہوتے ہیں۔ لہذا یہ عوامی صحت کا معاملہ ہونے کے ساتھ ساتھ معاشی مفاد کا بھی معاملہ ہے جس کے لئے بیماریوں سے نمٹنے اور ان کو قابو میں کرنے کے لئے بین الاقوامی سطح پر مربوط حکمت عملی میں سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔


متعلقہ خبریں