آٹا، چینی بحران: جہانگیر ترین سمیت دیگر اہم شخصیات نے کروڑوں روپے کا ہیر پھیر کیا


اسلام آباد: حکومت کی جانب سے آٹا اور چینی کے بحران سے متعلق رپورٹ میں حکومت سے وابستہ افراد کے ملوث ہونے کے بارے میں اہم انکشافات سامنے  آ گئے ہیں۔

ہم نیوز کو موصول ہونے والی رپورٹ کے مطابق حکومت کا حصہ ہونے والے رہنماؤں کی شوگر ملز نے کروڑوں روپے کا ہیر پھیر کیا ۔

رپورٹ کے مطابق جہانگیر ترین نے چھپن کروڑ، خسروبختیار کے بھائی نے پینتالیس کروڑ اور مونس الہیٰ گروپ نے چالیس کروڑ کمائے ۔

رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بحران سے فائدہ اٹھانے والے زیادہ تر شوگر ملز کے مالکان کا تعلق سیاسی خاندانوں سے تھا ۔ کئی حکومت میں ہونے کی وجہ سے پالیسیوں پر بھی اثرانداز ہوتے رہے۔

تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق ملک میں چینی کا مصنوعی بحران کا آغاز پنجاب حکومت کے چینی کی برآمد سے متعلق فیصلہ سے ہوا۔ پنجاب حکومت نے چینی کی برآمدات پر تین ارب روپے کی سبسڈی دی، تو شوگر ملز مالکان کی چاندی ہوگئی

رپورٹ کے مطابق جہانگیر خان ترین کو اس فیصلے سے سب سے زیادہ فائدہ ہوا۔ جہانگیرترین کے جی ڈی ڈبلیو گروپ نے ان تین ارب روپے کا بائیس فی صد حصہ کمایا، جو کہ تقریبا چھپن کروڑ روپے بنتے ہیں۔

رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقی خسرو بختیار کے بھائی مخدوم عمر شہریار خان کی شوگر مل نے 45 کروڑ کمائے۔

حکومتی رپورٹ کے مطابو اسپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الہٰی کے فرزند مونس الہیٰ گروپ نے چالیس کروڑ روپے پر ہاتھ صاف کیا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے چینی کی برآمدات پر تین ارب روپے سبسڈی اور برآمد کے بعد ملک میں چینی کی قیمتیں بڑھنے سے ڈبل فائدہ اٹھایا گیا۔ملک میں ذخیرہ اندوزی اور سٹے کے ذریعے قیمتیں بڑھائی گئیں، جس میں کروڑوں روپے کمائے گئے۔

رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ چھ شوگرملز گروپ پاکستان کی اکاون فی صد چینی کی پیدوار کنٹرول کررہے ہیں۔ ان چھ گروپس کا تعلق پاکستان کے سیاسی خاندانوں سے ہے۔

رپورٹ کے مطابق چینی بحران سے فائدہ اٹھانے والے بیشتر افراد وفاقی حکومت کا حصہ ہونے کی وجہ سے زرعی پالیسوں پر بھی اثرانداز ہوتے ہیں۔

دریں اثنا تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین نے اپنے  ٹویٹ میں کہا ہے کہ شوگر انکوائری رپورٹ کے مطابق میں نے 12 فیصد چینی ایکسپورٹ کی جبکہ میرا مارکیٹ شیئر 20 فیصد ہے۔

انہوں نے رپورٹ میں واضح ہے کہ میں نے اپنے حصے سے بھی کم چینی ایکسپورٹ کی۔ میری ملز کو ملنے والی 3 ارب روپے سبسڈی میں سے اڑھائی ارب روپے تب ملے جب حکومت ن لیگ کی تھی اور میں اپوزیشن میں تھا۔

انکوائری رپورٹ پر موقف دیتے ہوئے خسرو بختیار نے کہا کہ ہمیشہ چینی سےمتعلق ای سی سی اجلاس میں شرکت نہیں کی۔ مفادات کے ٹکراوَ کے باعث خود کوای سی سی کے اجلاسوں سے دوررکھا۔

رپورٹ پر موقف دیتے ہوئے چودھری پرویزالٰہی  نے کہا کہ میرا کسی بھی شوگر مل یا انڈسٹری سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ میں کسی بھی شوگرمل میں شیئر ہولڈر نہیں ہوں۔

دریں اثنا وزیر اعظم کے معاون خصوصی شہزاد اکبر نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں اس قسم کی رپورٹ پبلک نہیں کی گئی تھی۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم پہلے دن سے احتساب کی بات کرتے آئے ہیں۔ وزیراعظم نے رپورٹ پبلک کرکے مثال قائم کردی ہے۔

شہزاد اکبر نے کہا کہ مونس الہیٰ اور جہانگیر ترین نے 25 ارب روپے کی سبسڈی لی۔ میں سمجھتا ہوں ذمہ داروں کے خلاف کارروائی ضرور ہوگی۔

مزید پڑھیں: ’آٹا، چینی بحران پیدا کرنے والوں کو نہیں چھوڑیں گے‘

انہوں نے کہا کہ شوگر ایکسپورٹ کے باعث قیمتوں میں اضافہ ہوا، جس کا فائدہ اٹھایا گیا۔ سبسڈی جن افراد نے لی رپورٹ میں ان کے نام دیئے گئے ہیں۔

شہزاد اکبر نے کہا کہ سبسڈی سے فائدہ اٹھانے والے جے وی ڈبلیو، آر وائی کے گروپ شامل ہیں۔ گندم بحران میں وزیر خوارک  اور سیکریٹری کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔ سبسڈی سے فائدہ اٹھانے والوں میں شریف گروپ اور اومنی گروپ شامل ہیں۔


متعلقہ خبریں