پاکستان نے طبی عملے سے متعلق ویژن 2030 کا اعلان کردیا

حافظ آباد میں بڑا اپ سیٹ ن لیگی سائرہ افضل تارڑ بڑے مارجن سے ہار گئیں


اسلام آباد: وفاقی حکومت نے طبی عملے میں اضافے سے متعلق منصوبے ‘ہیومن ریسورس برائے ہیلتھ ویژن 2030’ کا اعلان کردیا ہے۔

محکمہ صحت کا کہنا ہے کہ ’ہر شہری کے لئے صحت کی سہولت‘ نامی پروگرام کے تحت طبی عملے کی دس لاکھ نئی آسامیاں پیدا کی جائیں گی۔

ہیومن ریسورس (انسانی وسائل) برائے ہیلتھ ویژن 2030 کا اعلان وفاقی وزیر مملکت برائے صحت سائرہ افضل تارڑ نے کیا۔

منصوبے میں بتایا گیا ہے کہ وفاق اور صوبوں نے صحت کے شعبے میں ہنرمند افراد کی کمی پوری کرنے کے لئے فزیشنز، نرسز اور مڈوائف کی تعداد بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔

ویژن 2030 کے تحت معالجین یعنی فزیشنز کی تعداد دو لاکھ پانچ ہزار 152 سے بڑھا کر تین لاکھ 14ہزار170 کی جائے گی۔ نرسز اور مڈوائف کی تعداد ایک لاکھ چار ہزار46 سے بڑھا کر نو لاکھ 42 ہزار456 کی جائے گی۔

ہیلتھ ویژن 2030 کے اعداد و شمار کے تحت اسلام آباد میں فزیشنز کی تعداد بڑھ کر ایک لاکھ 59 ہزار 886 ہو جائے گی۔ سندھ میں 70 ہزار 310، خیبرپختونخوا اور فاٹا میں 54 ہزار958، بلوچستان میں 20ہزار470 اور آزاد کشمیر و گلگت بلتستان میں 8 ہزار 566 کردی جائے گی۔

ملک میں ڈاکٹروں کی قلت، مریضوں کو دستیاب توجہ کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ڈاکٹر اوسطاً ایک مریض کو بمشکل ایک منٹ 47 سیکنڈ دے پاتے ہیں۔

2015 کے دستیاب اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 25 سو مریضوں کے لئے ایک نرس موجود تھی۔ تین برس قبل پاکستان میں ڈاکٹرز کی کل تعداد ایک لاکھ 84 ہزار 711 جب کہ  نرسوں کی تعداد 94 ہزار 766 ریکارڈ کی گئی تھی۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق 20 کروڑ آبادی کے ملک پاکستان کی دس سے 16 فیصد آبادی ذہنی امراض میں مبتلا ہے لیکن ملک میں صرف 400 سائیکاٹرسٹ موجود ہیں۔ گویا پانچ لاکھ افراد کو ایک سائیکاٹرسٹ دستیاب ہے۔ ذہنی امراض کے مریضوں کے لئے صرف پانچ اسپتال خدمات فراہم کرتے ہیں۔

2013 میں شائع کی گئی ایک اور رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ پاکستانی عوام کی غالب اکثریت تقریباً 79 فیصد علاج معالجے کے اخراجات اپنی جیب سے ادا کرتی ہے۔ اس وقت پاکستان میں رجسٹرڈ ڈاکٹروں کی تعداد ایک لاکھ 21 ہزار 374 تھی۔ گویا تقریباً 15 سو افراد کے لئے ایک ڈاکٹر موجود تھا۔

پاکستان میں طبی عملی بالخصوص معالجین کی کمی کا ایک بڑا سبب ماہرین طب کا بیرون ملک چلا جانا ہے۔ امریکا میں کام کرنے والے غیر ملکی ڈاکٹروں کی تیسری بڑی تعداد پاکستان سے تعلق رکھتی ہے۔


متعلقہ خبریں