امریکہ: برنی سینڈرز صدارتی انتخاب کی دوڑ سے دستبردار

امریکہ: برنی سینڈرز صدارتی انتخاب کی دوڑ سے دستبردار

اسلام آباد: صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو امریکی ماڈرن تاریخ کا سب سے خطرناک صدر قرار دینے والے 78 سالہ سینیٹر برنی سینڈرز نے جب صدارتی انتخابی مہم سے دستبرداری کا اعلان اپنے تین منٹ کے ویڈیو پیغام میں کیا تو کوروانا وائرس کے بعد امریکی اور مغربی ممالک کے ذرائع ابلاغ کی وہ سب سے بڑی خبر بن گئے۔

امریکی انتخابات 2020 : پاکستانی نژاد فیض شاکر کا کردار اہم ہوگا

برنی سینڈرز کی دستبرداری کے بعد سابق نائب امریکی صدر جوبائیڈن زیادہ مضبوط امیدوار کے طورپر سامنے آگئے ہیں حالانکہ ابھی فروری میں انہیں سینیٹر برنی سینڈرز کے مقابلے میں بہت کم ووٹ ملے تھے۔

سینیٹر برنی سینڈرز نے اپنے پیغام میں واضح کیا ہے کہ بلاشبہ ان کی انتخابی مہم ختم ہوگئی ہے لیکن معاشی و سماجی انصاف کے حصول اور رنگ و نسل کے امتیاز کے خاتمے کے حوالے سے ان کی جنگ جاری رہے گی۔

حیرت انگیز بات یہ ہے کہ سینیٹر برنی سینڈرز نے اپریل میں صدارتی مہم کی دوڑ سے علیحدگی کا اعلان کیا ہے جب کہ  فروری 2020 میں آئیوا کاکس کے ابتدائی نتائج میں انہیں اور پیٹ بٹی جج کو حریفوں پر برتری حاصل ہوئی تھی جن میں جو بائیڈن بھی شامل تھے۔

اعداد و شمار کے مطابق ڈیموکریٹ صدارتی امیدوار بننے کے خواہشمندوں کے درمیان جب آئیوا کاکس ہوا تھا تو اس میں 62 فیصد حلقوں کے نتائج کے مطابق بڈاجج کو 27 فیصد اوربرنی سینڈرز کو 25 فیصد ووٹ ملے تھے۔ الزبتھ وارن کو 18 فیصد ووٹ ملے تھے جب کہ سابق امریکی نائب صدر جوبائیڈن صرف 15 اعشاریہ 6 فیصد ووٹ حاصل کرسکے تھے۔

امریکہ میں صدارتی انتخابات کے شیڈول کا اعلان

اس وقت ذرائع ابلاغ میں برنی سینڈرز کے کچھ حامیوں کا یہ دعویٰ سامنے آیا تھا کہ ڈیموکریٹ پارٹی ہی برنی سینڈرز کو پیچھے کرنے کی سازش کررہی ہے۔

برنی سینڈرز نے فروری 2019 میں موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مد مقابل صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کیا تھا۔ انہوں نے یہ اعلان اپنے حامیوں کو بھیجی جانے والی ای میل میں کیا تھا۔

جس وقت سینیٹر برنی سینڈرز نے صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کیا تھا اسی وقت بعض امریکی ذرائع ابلاغ نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ انہیں پارٹی کے اندر مشکلات پیش آسکتی ہیں کیونکہ ان کی عمربطورخاص سوالیہ نشان بن سکتی ہے۔

اس ضمن میں سیاسی مبصرین کا خیال تھا کہ پارٹی میں نوجوان خاصی بڑی تعداد میں بھرپور طریقے سے متحرک ہیں لیکن دلچسپ بات ہے کہ ابھی ان کے مخالفین تسلیم کرتے ہیں کہ انہوں نے پورے ملک کے نوجوانوں کو بطور خاص اپنے ساتھ ملا لیا ہے۔

78 سالہ برنی سینڈرز 2016 میں بھی ہونے والی صدارتی دوڑ میں شریک ہونا چاہتے تھے لیکن ڈیموکریٹ پارٹی سے ٹکٹ لینے کے حصول میں ناکام رہے تھے کیونکہ ڈیموکریٹ نے ہیلری کلنتن کو اپنا امیدوار نامزد کیا تھا۔

پارٹی انتخاب میں برنی سینڈرز کو 46 فیصد ووٹ ملے تھے جب کہ ہیلری کلنٹن 54 فیصد ووٹ حاصل کرنے کی وجہ سے کامیاب قرار دی گئی تھیں۔

سینیٹر برنی سینڈرز کا اس مرتبہ کہنا تھا کہ 2020 کے لیے ان کی مہم گزشتہ سے کافی مختلف ہوگی اور وہ ری پبلکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے جم کر مقابلہ کریں گے۔

ڈیموکریٹ سینیٹر برنی سینڈرز اس مرتبہ صدارتی مہم کس طرح ماضی کی نسبت مختلف انداز میں چلاتے اس کے متعلق تو انہوں نے کچھ نہیں کہا تھا لیکن یہ ضرورکیا تھا کہ پاکستانی نژاد اورانسانی حقوق کے علمبردار فیض شاکر کو اپنی صدارتی مہم کا کمپین مینیجر مقرر کردیا تھا۔

امریکی تاریخ میں فیض شاکر پہلے مسلمان اور پہلے پاکستانی نژاد امریکی شہری ہیں جنہیں کسی بھی صدارتی انتخابی مہم میں یہ اہم ترین ذمہ داری تفویض کی گئی تھی۔

2020 میں ہونے والے صدارتی انتخاب کے حوالے سے ان کا مؤقف اپنایا تھا کہ وہ صدارتی انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے امریکی معیشت کا رخ چند لوگوں سے ہٹا کرعام عوام کی جانب موڑ دیں گے۔

برنی سینڈرز کا ایک مرتبہ پھر صدارتی الیکشن لڑنے کا اعلان

برنی سینڈرز کا صدر ٹرمپ کے متعلق کہنا تھا کہ ہم ایک ایسے شخص کے خلاف لڑنے جا رہے ہیں جو جھوٹا، فراڈ کرنے والا، نسل پرست اورانتہائی مکار انسان ہے۔ ان کا مؤقف تھا کہ ہمیں اس کے چنگل سے امریکی جمہوریت کو آزاد کرانا ہے۔

برنی سینڈرز نے جب صدارتی انتخابی مہم میں حصہ لینے کا اعلان کیا تو ڈونلڈ ٹرمپ نے انہیں ’’کریزی قرار دیتے ہوئے دوڑ میں شریک ہونے پر خوش آمدید بھی کہا تھا۔

سینیٹر برنی سینڈرز امریکہ کی شمالی ریاست ورمونٹ سے آزاد حیثیت میں سینیٹ کے رکن ہیں لیکن ایوان میں وہ ڈیموکریٹس کی نشستوں پر بیٹھتے ہیں۔ انہیں کانگریس کے سب سے طویل عرصے تک منتخب ہونے والے آزاد رکن کا اعزاز بھی حاصل ہے۔


امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سینیٹر برنی سینڈرز کی دستبرداری پر سماجی رابطے کی ویب سائت ’ٹوئٹر‘ پرجاری کردہ اپنے پیغام میں کہا ہے کہ ڈیموکریٹس کے صدارتی امیدوار کی دوڑ ختم ہوگئی ہے اور بالکل اس طرح، جس طرح ڈیموکریٹس اور ڈیموکریٹک نیشنل کمیٹی چاہتی تھی۔

امریکی صدر ٹرمپ نے سینیٹر  برنی سینڈر کے حامیوں کو دعوت دی ہے کہ وہ ری پبلکن پارٹی میں آجائیں۔

32امریکی اراکین کانگریس کا ایران سے پابندیاں ہٹانے کا مطالبہ

برنی سینڈرز امریکی تاریخ میں ایک جرات مند سیاستدان کے طور پرجانے جاتے ہیں۔ ان کے متعلق مشہور ہے کہ جو کچھ ان کے دل میں ہوتا ہے وہ بنا لگی لپتی رکھے اسے بیان کردیتے ہیں اور اس میں نفع نقصان نہیں دیکھتے ہیں۔

ان کی جرات مندی کی مثال ہے کہ ابھی کچھ عرصے قبل دیگر 31 امریکی سینیٹرز کو ساتھ ملا کر امریکی سیکریٹری خارجہ اور سیکریٹری خزانہ کو انہوں نے خطوط لکھے تھے جس میں ان سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ ایران پرعائد پابندیوں کا خاتمہ کریں۔

امریکی سینیٹرز نے خطوط میں مؤقف اختیار کیا تھا کہ سخت پابندیاں ایران میں کورونا وائرس سے نمٹنے کی کوششوں میں رکاوٹ ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ، ایران تنازعہ کورونا سے پریشان معصوم لوگوں کی مدد میں رکاوٹ نہیں بننا چاہیے۔

انتہائی بے باک انداز میں پوری سچائی کے ساتھ بے دھڑک اپنا مافی الضمیر بیان کرنے کی صلاحیت کے حامل اورحوصلہ مند مدبر سیاستدان سینیٹر برنی سینڈرز نے گزشتہ سال جب بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں ظلم و بربریت کی نئی تاریخ رقم کرنا شروع کی تو انہوں نے مؤقر امریکی اخبار ’Houston Chronicle‘ میں بذات خود ایک طویل مضمون لکھا جس میں انہوں نے لکھا کہ امریکی خارجہ پالیسی میں انسانی حقوق بنیادی عنصر کے طور پر شامل ہے لیکن امریکی صدر نے بھارتی اقدامات پر کسی قسم کی تنقید نہیں کی بلکہ حد یہ کہ ایک لفظ تک ادا نہیں کیا۔

ٹرمپ نے کشمیر پر خاموشی اختیار کرکے امریکی کردار تہس نہس کردیا، برنی سینڈرز

ہمالیائی وادی چنار کی صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے سینیٹربرنی سینڈرز نے اپنے تحریر کردہ مضمون میں لکھا ہے کہ صدرڈونلڈ ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر پرچپ سادھ کرمودی کی ریلی میں شرکت کی۔ انہوں نے لکھا کہ دونوں کی ہونے والی ملاقات میں دوستی کی بازگشت سنائی دی لیکن انسانی المیے پر مکمل خاموشی ناقابل قبول ہے۔

سینیٹربرنی سینڈرز نے لکھا تھا کہ ٹرمپ نے امریکہ کا عالمی لیڈر شپ کا کردار تہس نہس کردیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کشمیرمیں انسانی حقوق کی پامالیوں کا معاملہ ہونے والی ملاقات میں اٹھانا چاہئے تھا۔


متعلقہ خبریں