کوروناکیخلاف جنگ میں پاکستانی سائنسدانوں کا اہم کامیابی کا دعویٰ



کراچی: کوروناوائرس کے خلاف جنگ میں پاکستانی سائنسدانوں نے اہم کامیابی حاصل کرنے کا دعوی کیا ہے۔

ڈاؤ یونیورسٹی کے ماہرین نے کورونا کےعلاج کے لیے انٹرا وینیس امیونو گلوبین(آئی وی آئی جی) تیار کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

پروفیسر محمدسعید قریشی کا کہنا ہے کہ آئی وی آئی جی کورونا کے خلاف جنگ میں اہم پیش رفت ہے۔ کورونا کے صحت یاب مریضوں کے جسم سے حاصل شفاف اینٹی باڈیز سے امیونوگلوبین تیار کرلی گئی۔

ڈاؤ یونیورسٹی کے ماہرین نے تیارگلوبین کی ٹیسٹنگ اور اینمل سیفٹی ٹرائل بھی کامیابی سے کیا ہے۔ پروفیسر شوکت نے امیونو گلوبین کی تیاری کورونا بحران میں امید کی کرن ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستانی سائنسدان نےکورونا وائرس کاویکسینیشن ماڈل تیارکرلیا

خیال رہے کہ اس سے قبل پنجاب یونیورسٹی کے طالب علم حافظ مزمل نے کورونا وائرس کا جدید ویکسینیشن ماڈل تیار کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔

حافظ مزمل کا کورونا وائرس پر تحقیقی مقالہ بین الاقوامی جریدے میں بھی شائع ہوا۔ پاکستانی سائنسدان کا تحقیقی مقالہ ایم ڈی پی آئی کے سب کنٹینینٹ پری پرنٹ نے شائع کیا۔

پنجاب یونیورسٹی کے طالب علم نے کورونا وائرس کے چار اہم پروٹین پر تحقیق کی۔ ویکسین کے تمام تجربات کمپیوٹیشنل سافٹ ویئر اور ڈیٹا بیسزکے ذریعے کیے گئے۔

حافظ مزمل پی ایچ ڈی اسکالر ہیں اور پنجاب یونیورسٹی میں اسسٹنٹ رجسٹرارتعینات ہیں۔ حافظ مزمل فرانزک سائنسدان کے طور پر بھی خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ کم وقت میں کسی ویکسین کو بنانے کے لئے کمپیو ٹیشنل ٹیکنالوجی استعمال کی جاتی ہیں۔

خیال رہے کہ کورونا وائرس دنیا کے 209 ممالک میں پھیل چکا ہے اور اس سے18 لاکھ سے زائد افراد متاثر ہیں جب کہ ہلاکتیں ایک لاکھ سے تجاوز کر گئی ہیں۔

دنیا کی تمام بڑی کمپنیاں اس وقت کورونا وائرس کی ویکسین تیار کرنے کیلئے دن رات کوشش کر رہی ہیں۔

کورونا وائرس کے مریضوں میں مسلسل اضافے کے سبب دنیا بھر میں درجنوں تحقیقی گروپ ایک ویکسین بنانے کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں اور ایک وقت میں مختلف اقسام کی ویکسینوں پر کام کیا جا رہا ہے۔

زیادہ توجہ نئی ٹکنالوجی سے تیار کردہ شاٹس پر دی جا رہی ہے کیوں کہ روایتی ٹیکوں کی نسبت نہ صرف ان کو تیزی سے تیار کیا جاسکتا ہے بلکہ زیادہ مؤثر بھی ہیں۔

مزیدبرآں پنسلوانیا کی یونیورسٹی کی میں دوا ساز کمپنی انویو بھی آئندہ ماہ اپنی ویکسین کا تجربہ کرے گی جس کے بعد اس کو چین اور جنوبی کوریا میں آزمایا جائے گا۔

امریکی صحت عامہ کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ کسی بھی ممکنہ ویکسین کی مکمل تصدیق میں ایک سال سے 18 ماہ کا وقت لگے گا۔


متعلقہ خبریں