امریکی صدارتی انتخابات: برنی سینڈرز نے جو بائیڈن کی حمایت کا اعلان کر دیا


نیویارک: سینیٹر برنی سینڈرز نے ڈیموکریٹس کی جانب سے امریکہ کے صدارتی الیکشن کے لیے جو بائیڈن کی حمایت کا اعلان کر دیا۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے نیویارک ٹائمز کے مطابق برنی سینڈرز نے جو بائیڈن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ انتخابات میں کامیابی کے لیے میں آپ کا بھرپور ساتھ دوں گا اور جو کچھ ہو سکا وہ کروں گا۔

جو بائڈن نے کہا کہ الیکشن مہم کو کامیاب بنانے اور حکومت کو چلانے کے لیے مجھے آپ کے ساتھ کی ضرورت  رہے گی۔

یاد رہے گزشتہ ہفتے سینیٹر برنی سینڈرز نے جب صدارتی انتخابی مہم سے دستبرداری کا اعلان کیا تھا۔

امریکی انتخابات 2020 : پاکستانی نژاد فیض شاکر کا کردار اہم ہوگا

برنی سینڈرز کی دستبرداری کے بعد سابق نائب امریکی صدر جوبائیڈن زیادہ مضبوط امیدوار کے طورپر سامنے آگئے تھے حالانکہ ابھی فروری میں انہیں سینیٹر برنی سینڈرز کے مقابلے میں بہت کم ووٹ ملے تھے۔

سینیٹر برنی سینڈرز نے اپنے پیغام میں واضح کیا ہے کہ بلاشبہ ان کی انتخابی مہم ختم ہوگئی ہے لیکن معاشی و سماجی انصاف کے حصول اور رنگ و نسل کے امتیاز کے خاتمے کے حوالے سے ان کی جنگ جاری رہے گی۔

حیرت انگیز بات یہ ہے کہ سینیٹر برنی سینڈرز نے اپریل میں صدارتی مہم کی دوڑ سے علیحدگی کا اعلان کیا ہے جب کہ  فروری 2020 میں آئیوا کاکس کے ابتدائی نتائج میں انہیں اور پیٹ بٹی جج کو حریفوں پر برتری حاصل ہوئی تھی جن میں جو بائیڈن بھی شامل تھے۔

اعداد و شمار کے مطابق ڈیموکریٹ صدارتی امیدوار بننے کے خواہشمندوں کے درمیان جب آئیوا کاکس ہوا تھا تو اس میں 62 فیصد حلقوں کے نتائج کے مطابق بڈاجج کو 27 فیصد اوربرنی سینڈرز کو 25 فیصد ووٹ ملے تھے۔ الزبتھ وارن کو 18 فیصد ووٹ ملے تھے جب کہ سابق امریکی نائب صدر جوبائیڈن صرف 15 اعشاریہ 6 فیصد ووٹ حاصل کرسکے تھے۔

امریکہ میں صدارتی انتخابات کے شیڈول کا اعلان

اس وقت ذرائع ابلاغ میں برنی سینڈرز کے کچھ حامیوں کا یہ دعویٰ سامنے آیا تھا کہ ڈیموکریٹ پارٹی ہی برنی سینڈرز کو پیچھے کرنے کی سازش کررہی ہے۔

برنی سینڈرز نے فروری 2019 میں موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مد مقابل صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کیا تھا۔ انہوں نے یہ اعلان اپنے حامیوں کو بھیجی جانے والی ای میل میں کیا تھا۔

جس وقت سینیٹر برنی سینڈرز نے صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کیا تھا اسی وقت بعض امریکی ذرائع ابلاغ نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ انہیں پارٹی کے اندر مشکلات پیش آسکتی ہیں کیونکہ ان کی عمربطورخاص سوالیہ نشان بن سکتی ہے۔

اس ضمن میں سیاسی مبصرین کا خیال تھا کہ پارٹی میں نوجوان خاصی بڑی تعداد میں بھرپور طریقے سے متحرک ہیں لیکن دلچسپ بات ہے کہ ابھی ان کے مخالفین تسلیم کرتے ہیں کہ انہوں نے پورے ملک کے نوجوانوں کو بطور خاص اپنے ساتھ ملا لیا ہے۔

78 سالہ برنی سینڈرز 2016 میں بھی ہونے والی صدارتی دوڑ میں شریک ہونا چاہتے تھے لیکن ڈیموکریٹ پارٹی سے ٹکٹ لینے کے حصول میں ناکام رہے تھے کیونکہ ڈیموکریٹ نے ہیلری کلنتن کو اپنا امیدوار نامزد کیا تھا۔

پارٹی انتخاب میں برنی سینڈرز کو 46 فیصد ووٹ ملے تھے جب کہ ہیلری کلنٹن 54 فیصد ووٹ حاصل کرنے کی وجہ سے کامیاب قرار دی گئی تھیں۔

 


متعلقہ خبریں