سپریم کورٹ کو زکوٰۃ کی تقسیم پر تحفظات،اسلامی نظریاتی کونسل سے رائے طلب



اسلام آباد: سپریم کورٹ نے پاکستان میںزکوٰۃ کی تقسیم پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بیت المال والے کسی کو فنڈ نہیں دیتے، 251بلین روپے پتہ نہیں صوبوں نے کہاں خرچ کیے۔

چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5رکنی لارجر بینچ نے کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیےازخود نوٹس کیس کی سماعت کی ہے۔ اٹارنی جنرل خالد جاوید خان سپریم کورٹ میں پیش۔

عدالت نے تحریری فیصلے میں اسلامی نظریاتی کونسل اور مفتی تقی عثمانی سے شرعی رائے طلب کی ہےکہ کیا زکوٰۃ اور بیت المال کے پیسے سے ادارے کی تنخواہیں دی جا سکتی ہیں یا نہیں؟ کیازکوٰۃ اور صدقے کی رقم سے ادارے کے دیگر اخراجات بھی چلائے جا سکتے ہیں یا نہیں؟ 

چیف جسٹس گلزار احمد نے اٹارنی جنرل سے استفسارکیا کہ زکوٰۃ کا پیسہ کہاں خرچ ہو رہا ہے؟ زکوٰۃ کے حوالے سے جمع کرائی گئی رپورٹ میں کچھ نہیں بتایا گیا، بیت المال نے بھی کوئی جواب جمع نہیں کرایا۔ محکمہ زکواۃ کے جواب میں صرف قانون بتایا گیا۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کا آگاہ کیا کہ وفاقی حکومت  زکوٰۃ فنڈ صوبوں کو دیتی ہے، صوبائی حکومتیں زکوٰۃ مستحقین تک نہیں پہنچاتی ہے، زکواۃ فنڈ کا بڑا حصہ تو انتظامی اخراجات پر لگ جاتا ہے۔

بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیے کہ زکوٰۃ کا پیسہ عملے کی تنخواہ پر نہ لگایا جائے، زکوٰۃ کے پیسے سے ٹی اے ڈی اے پر نہیں بلکہ اصل لوگوں پر خرچ ہوں۔ زکٰوۃ کے پیسے سے دفتری امور نہیں چلائے جا سکتے۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ بیت المال والے کسی کو فنڈ نہیں دیتے۔ مسئلہ یہ ہے کہ کسی کام میں شفافیت نہیں، سندھ حکومت ہو یا کسی صوبے کی، مسئلہ شفافیت کا ہے۔ کسی بھی عمل میں شفافیت نہیں دکھائی دے رہی۔

جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ رپورٹ کے مطابق وفاق نے 9 ارب سے زائد زکوٰۃ جمع کی، مستحقین تک رقم کیسے جاتی ہے اس کا کچھ نہیں بتایا گیا۔

وفاقی حکومت کو زکوٰۃ  فنڈ کا آڈٹ کروانا چاہیے اس سے صوبائی خودمختاری متاثر نہیں ہو گی۔ صوبوں رقم کا کیا کررہے ہیں اس کی نگرانی ہونی چاہے۔  چیف جسٹس ریمارکس دیے کہ کوئی طریقہ کار صوبوں اوروفاق کے مابین دیکھائی نہیں دے رہا۔

بیت المال والوں نے عدالت میں جوا ب بھی نہیں کرایا، بیت المال کیا کررہا ہے،عدالت کو کیا معلوم؟

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مزارات کے پیسے سے افسران کیسے تنخواہ لے رہے ہیں ڈی جی بیت المال بھی زکوٰۃ فنڈ سے تنخواہ لے رہے ہیں۔ بینچ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ جو قوانین صوبوں نے بنائے ہیں ان کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے۔


متعلقہ خبریں