فافن رپورٹ:92 صوبائی حلقوں کی تشکیل میں قانون کی خلاف ورزیاں


اسلام آباد: الیکشن کمیشن کی جانب سے کی جانے والی نئی حلقہ بندیوں میں 92 ایسی صوبائی نشستوں کی نشاندہی ہوئی ہے جو انتخابی عمل کے بنیادی قواعد و ضوابط سے انحراف کرکے تشکیل دی گئی ہیں۔

فری اینڈ فیئرالیکشن نیٹ ورک (فافن) نے نئی حلقہ بندیوں کے جائزے پر مشتمل رپورٹ میں ان خلاف ورزیوں کی نشاندہی کی ہے۔

ملک میں ووٹ کے مساوی حق کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے قانوناً  پابندی عائد ہے کہ حلقہ بندیوں میں رائے دہندگان (ووٹرز) کی تعداد میں دس فیصد سے زائد فرق نہ ہو۔

رپورٹ کے مطابق بلوچستان کی 26، خیبرپختونخوا کی 22، پنجاب کی 21 اور سندھ کی 23 صوبائی اسمبلیوں کی نشستیں ووٹ کے مساوی حق سے انحراف کرتے ہوئے تشکیل دی گئی ہیں۔

فافن کے مطابق صوبائی اسمبلیوں کی 72 نشستیں ایسی ہیں جن میں آبادی کے تناسب میں فرق گیارہ سے 20 فیصد کے درمیان ہے۔ نو نشستوں پر آبادی کے  تناسب میں فرق 21 سے 30 فیصد، سات پر 31 سے 40 فیصد اور تین پر یہ فرق 41 سے 50 فیصد تک ہے۔

فافن رپورٹ میں یہ حیرت انگیز انکشاف بھی سامنے آیا ہے کہ بلوچستان کی ایک نشست پر ووٹوں کے تناسب میں 50 فیصد سے زائد فرق ہے۔

رائے دہندگان کے درمیان فرق کے حوالے سے فافن نے بتایا ہے کہ اوسطاً بلوچستان اسمبلی کی ایک نشست دو لاکھ 42 ہزار 54 ووٹوں پر مشتمل ہے جب کہ پنجاب کی ایک نشست تین لاکھ 70 ہزار 307 ووٹوں پر بنائی گئی ہے۔

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ رائے دہندگان کے درمیان بہت زیادہ فرق صرف صوبوں کے درمیان ہی نہیں ہے بلکہ ایک ہی صوبے کی نشستوں کے مابین بھی حیرت انگیز تفریق نظر آتی ہے۔

اس ضمن میں بلوچستان اسمبلی کی نشست پی بی -17 جھل مگسی کی مثال دی گئی ہے جس کے کل ووٹرز کی تعداد ایک لاکھ 49 ہزار225 ہے جب کہ اس کے مقابلے پر پی بی 24  قلعہ عبداللہ-111 کی نشست چار لاکھ سات ہزار 323 ووٹرز پر مشتمل ہے جو تقریباً تین گنا ہے۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے تشکیل دی جانے والی حلقہ بندی کے تحت پی بی -24 کے رائے دہندہ کی ’ووٹنگ حیثیت‘ پی بی -17 کے مقابلے میں تین گنا کم ہوگی۔

اسی طرح ضلع غربی کراچی کے 16 لاکھ ووٹرز گیارہ اراکین صوبائی اسمبلی کو منتخب کریں گے جبکہ ضلع شرقی کے 17 لاکھ ووٹرز صرف آٹھ اراکین کو اپنا حق نمائندگی دینے کے مجاز ہوں گے۔

سات لاکھ سے زائد آبادی والے ایبٹ آباد کو چار نشستیں ملی ہیں جب کہ چھ لاکھ 22 ہزار آبادی پر مشتمل لوئر دیر کو حق دیا گیا ہے کہ وہ صوبائی اسمبلی میں اپنے پانچ نمائندے بھیجے۔

فافن نے الیکشن کمیشن کو تجویز دی ہے کہ وہ اعلان کردہ حلقہ بندیوں میں ’بنیادی‘ قانون کی پاسداری کو یقینی بنائے۔

فافن کی رپورٹ نے آئندہ عام انتخابات کے حوالے سے متعدد سنجیدہ نوعیت کے سوالات کو جنم دیا ہے۔ سیاسی جماعتوں سمیت رائے دہندگان بھی مجوزہ حلقہ بندیوں پر شش و پنج میں مبتلا دکھائی دے رہے ہیں۔

قومی اسمبلی کی کمیٹی بھی الیکشن کمیشن کی جانب سے اعلان کردہ نئی حلقہ بندیوں کو پہلے ہی مسترد کرچکی ہے۔


متعلقہ خبریں