’ہو سکتا ہے کہ سعادت حسن مرجائے اور منٹو نہ مرے‘



اسلام آباد: ’ہو سکتا ہے کہ سعادت حسن مرجائے اور منٹو نہ مرے‘، اپنے اطراف پھیلی سچائیوں کو افسانوں اور خاکوں کا حصہ بنا کر امر ہو جانے والے سعادت حسن منٹو کے ان الفاظ کی چھ دہائیوں بعد بھی گونج اس بات کا ثبوت ہے کہ انہوں نے اپنے بارے میں درست کہا تھا۔

بے باکی، بے خوفی اور پر اثر انداز تحریر کے ذریعے اپنی تحریروں سے معاشرے کو آئینہ دکھانے والے سعادت حسن منٹو 11 مئی 1912 کو بھارت کے ضلع لدھیانہ میں پیدا ہوئے اور ابتدائی تعلیم اپنے گھر میں حاصل کی۔

1921 میں ایم او مڈل اسکول میں چوتھی جماعت میں داخلہ لیا۔ پاکستان بننے کے بعد منٹو نے ٹوبہ ٹیک سنگھ اور کھول دو، ٹھنڈا گوشت، دھواں اور بو سمیت کئی بہترین افسانے تخلیق کیے جو اردو ادب کے افق پر ہمیشہ جگمگاتے رہیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: عاصم اظہر کی جانب سے ہانیہ عامر کی سالگرہ، تصویری کہانی

معاشرتی ناانصافی، ظلم اور انسانی جذبات کے موضوعات پر جب منٹو کا قلم اٹھا تو شاہکار تخلیق پائے۔

عورت بھی منٹو کی تحریروں کا اہم موضوع رہی، وہ اپنی تحریروں کے ذریعے برائیوں پر نشتر چلاتے اور معاشرتی اتار چڑھاؤ کو زیب قرطاس کرتے، ان کی کئی تحریروں میں عورت کی بے بسی اور مرد کی بے حسی نمایاں طور پر نظر آتی ہے ۔

برصغیر کی تقسیم کے واقعات کو بھی انہوں نے اپنی تحریروں کا حصہ بنایا اور کچھ اس انداز میں بیان کیا جیسے بیان کرنے کی جرات منٹو کے علاوہ کسی میں نہ تھی ۔

’ہو سکتا ہے کہ سعادت حسن مرجائے اور منٹو نہ مرے‘

منٹو کا قصور صرف یہ رہا کہ انہوں نے انسان کو اس کا اصل چہرہ دکھانا چاہا اور اس جرم کی پاداش میں ان پر مقدمے بھی چلے اور انہیں فحش نگار بھی کہا گیا، سعادت حسن اُن مقدموں سے بری بھی ہو گئے، منٹو کہتے تھے کہ افسانہ مجھے لکھتا ہے۔

انہوں نے تمام عمر دوسروں کے غم خود کو لگائے رکھے یہی وجہ ہے کہ ساری زندگی آسودگی ان سے دور ہی رہی۔

اردو ادب کے لیے ان کی خدمات کو تسلیم کرنے کا سلسلہ دہائیاں گزرنے کے باوجود بھی جاری ہے، پاکستان میں ان پر بنی فلم میں ان کی مختصر زندگی کا احاطہ کیا گیا اور ان پر ڈرامے بھی بنائے گئے۔

نہ صرف پاکستان بلکہ پڑوسی ملک بھارت میں بھی ان کی خدمات کو مانا گیا اور فلم کی صورت میں ان کی زندگی کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: شاعری سے انقلاب برپا کرنے والے حبیب جالب کی 27ویں برسی آج

بیالیس برس کی مختصر زندگی میں منٹو نے ڈھائی سو سے زائد افسانے ، ناول ، ڈرامے ، خاکے اور بیسیوں کالم لکھے۔

اردو کے اس عظیم افسانہ نگار کا انتقال 42 برس کی عمر میں 18 جنوری 1955 کو ہوا مگر وہ اپنی تحریروں کے حوالے سے دنیائے ادب میں سدا زندہ رہیں گے۔

اردو کےعظیم افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کو ان کے 108ویں یوم پیدائش پر گُوگل نے اپنے ڈوڈل کا حصہ بناتے ہوئے خراج عقیدت پیش کیا ہے۔


متعلقہ خبریں