فافن: حکومتی کاوش میں مزید بہتری و سنجیدگی کی ضرورت

سیاسی جماعتیں انتخابی قوانین میں ضروری تبدیلیاں لائیں، فافن

اسلام آباد: ملک کی چاروں صوبائی اسمبلیوں سے  تعلق رکھنے والے اراکین نے کورونا وائرس سے نمٹنے اورملک کو درپیش معاشی و معاشرتی مسائل کے حل کے لیے حکومتی کاوش کو مزید بہتر و سنجیدہ بنانے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

کورونا، فافن کا سیاسی رہنماؤں کو اتفاق پیدا کرنے کا مشورہ

ہم نیوز کے مطابق صوبائی اراکین اسمبلی نے ان خیالات کا اظہار فری اینڈ فئیر الیکشن نیٹ ورک (فافن) کی جانب سے کیے گئے ٹیلیفونک سروے میں کیا۔

ٹیلی فونک سروے میں شریک 219 اراکین صوبائی اسمبلی میں سے 59  فیصد کا کہنا تھا کہ وفاقی و صوبائی حکومتوں کو معیشت اور صحتِ عامہ کے حالیہ بحران سے نمٹنے کے لیے مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔

59 فیصد میں سے 21 فیصد ارکان اسمبلی کا تعلق چاروں صوبوں کی حکمران جماعتوں جب کہ 38 فیصد کا تعلق اپوزیشن جماعتوں سے تھا۔

پاکستان میں جمہوریت پر یقین مستحکم ہوا ہے، چیئرمین فافن

17 اپریل سے 24 اپریل کے دوران کیے جانے والے اس سروے میں چاروں صوبائی اسمبلیوں کے 749 ممبران میں سے 219 (29 فیصد) اراکین کی آرا شامل ہیں۔

فافن کی رپورٹ کے مطابق صوبہ پنجاب کے تقریباً دو تہائی( 65 فیصد )اراکین اسمبلی ، بلوچستان کے 55 فیصد ، خیبر پختون خواکے 42 فیصد اور سندھ کے 41 فیصد اراکین نے اپنی متعلقہ صوبائی حکومتوں کی جانب سے کیے گئے اقدامات کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔

سروے میں شامل 37 فیصد اراکین صوبائی اسمبلی نے وفاقی حکومت کے اب تک کیے جانے والے اقدامات کو کافی اور مؤثر قرار دیا  جب کہ تقریبا چار فیصد اراکین نے وفاقی یا صوبائی حکومتوں کی کارکردگی پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔

رپورٹ کے مطابق اراکین اسمبلی کی جانب سے دی جانے والی زیادہ تر تجاویز کا موضوع وبا کے معاشی اثرات سے نمٹنا اورٹیسٹ کی سہولتوں میں بہتر ی لانا تھا۔

سروے رپورٹ میں شامل تقریباً ایک تہائی اراکین اسمبلی (73) نے حکومت کی جانب سے لاک ڈاؤن کی پالیسی پر اپنی رائے کا اظہار کیا۔ ان میں سے 62 فیصد (45) نے وبا کے خاتمے تک لاک ڈاؤن پر سختی سے عمل درآمد کی حمایت کی جب کہ 38 فیصد (28) ارکان نے لاک ڈاؤن کی پابندیاں ختم کرنے کی سفارش کی۔

کورونا وائرس: ‘وسائل کے استعمال کی شفافیت کو یقینی بنایا جائے’

فافن کی سروے رپورٹ میں شریک اراکین اسمبلی میں سے تقریبا نصف کا کہنا تھا کہ ان کا کرونا وبا سے نمٹنے کے سلسلے میں اب تک اپنے ضلع کی انتظامیہ کے ساتھ کسی طرح کا رابطہ نہیں ہوا ہے۔

اراکین اسملبی کے مطابق انتظامیہ اور حکومت کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات پر اعتماد میں اضافے کے لیے صوبائی اسمبلیوں کے اجلاس کو بلانا مفید ہوسکتا ہے۔

ہم نیوز کے مطابق رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وفاقی پارلیمان اور پنجاب اسمبلی کے اجلاس پہلے ہی طلب کیے جا چکے ہیں جب کہ بلوچستان، خیبر پختونخوا اور سندھ میں بھی صوبائی حکومتوں کو صوبائی اسمبلیوں کے اجلاس بلانے پر غور کرنا چاہیے۔

اس ضمن میں اراکین اسمبلی کی اکثریت نے صوبائی اسمبلیوں کے اجلاس بلانے کے مطالبے کی حمایت کی ہے۔

موجودہ صورتحال میں قومی اسمبلی کا اجلاس نہیں ہونا چاہیے، شبلی فراز

سروے میں شامل خیبر پختونخوا اسمبلی کے 64 فیصد اراکین ، بلوچستان کے 60 فیصد، پنجاب کے 59 فیصد اورسندھ کے 32 فیصد اراکین کا کہنا تھا کہ صوبائی اسمبلیوں کے فوری اجلاس بلائے جانے چاہئیں۔

رپورٹ کے مطابق اسمبلی اجلاس بلانے کے حامی ارکان میں سے 36 فیصد کا تعلق حزب اختلاف کی جماعتوں سے جب کہ 18 فیصد کا تعلق صوبائی حکمران جماعتوں سے تھا تا ہم 31 فیصد اراکین نے یہ کہتے ہوئے اجلاس بلانے کی مخالفت کی کہ اس سے ارکان کی صحت کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔

اسمبلی اجلاس بلانے کی مخالفت کرنے والے کئی اراکین کا یہ بھی کہنا تھا اجلاسوں کے دوران ہونے والی بے نتیجہ بحث کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔

فافن نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ اراکین اسمبلی کی صحت کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے پنجاب اسمبلی کے جاری اجلاس میں کئی اقدامات کئے گئے ہیں جن میں اراکین کی کم حاضری اور سیکرٹریٹ میں عام شہریوں کے داخلے پر پابندی شامل ہے۔

اراکین اسمبلی کے درمیان محفوظ فاصلے کو یقینی بنانے کے لئے اسمبلی ہال کی عوامی اور پریس گیلریوں کا استعمال کیا جارہا ہے۔

پی پی نے پارلیمنٹ کا اجلاس مؤخر کرنے کی تجویز دے دی

اجلاس کی کارروائی کو اسمبلی ویب سائٹ پر براہ راست نشر بھی کیا جارہا ہے لیکن تیکنیکی وجوہات کی بنا پر یہ نشریات بڑے پیمانے پر نہیں دیکھی جارہی ہیں۔

فافن کی رائے میں اسمبلی سیکرٹریٹ کو چاہئیے کہ وہ ایوان کی کارروائی اور فیصلوں کو ذرائع ابلاغ اور عوام الناس تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا بشمول یوٹیوب چینل کا استعمال کرے۔

ہم نیوز کے مطابق سروے میں شامل اراکین اسمبلی میں سے 101 کا تعلق پنجاب ، 53 کا سندھ اسمبلی ، 45 کا خیبر پختونخوا اور 20 کا بلوچستان سے تھا۔

سروے کے لیے 15 پارلیمانی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی سے رابطہ کیا گیا تھا۔

پارلیمان کا ایک تہائی ایجنڈا خواتین ارکان نے پیش کیا: فافن رپورٹ

سروے کے شرکا میں حکومتی اور حزب اختلاف کی جماعتوں کو برابر نمائندگی دی گئی۔ انٹرویو دینے والوں میں تقریبا ایک چوتھائی (27 فیصد) خواتین اراکین شامل تھیں۔


متعلقہ خبریں