امریکا اور اتحادیوں نے شام پر حملہ کیوں کیا؟

امریکا اور اتحادیوں نے شام پر حملہ کیوں کیا؟ | urduhumnews.wpengine.com

اسلام آباد: امریکا نے فرانس اوربرطانیہ کے ساتھ مل کر شام میں اسد حکومت کی فوجی تنصیبات پر میزائل حملہ کیا ہے۔ کینیڈا، نیٹو اور ترکی نے کارروائی کی حمایت کی ہے۔

شامی حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکا اور اس کے اتحادی برطانیہ اور فرانس نے شام پر کُل 30 میزائل داغے جن میں سے ایک تہائی کو فضا میں ناکارہ بنایا گیا ہے تاہم امریکا کا کہنا ہے کہ اس نے ایک سو میزائل داغے ہیں۔

امریکا نے اس حملے سے پہلے کہا تھا کہ شام کی سرکاری فوج نے اپنے شہریوں پر کیمیائی بم برسائے جس میں خواتین اور بچوں سمیت متعدد افراد ہلاک ہوئے ہیں، جب کہ شامی حکومت نےکیمیائی حملوں سے انکار کیا تھا۔

بشار الاسد حکومت نے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ باغیوں نے من گھڑت رپورٹیں بنا کر نشر کی ہیں تاکہ حکومت کو موردالزام ٹھہرا کر شامی علاقے دوما پر قبضے سے باز رکھا جائے۔

شامی وزارتِ خارجہ کے ایک اہلکار نے کہا کہ ‘جب بھی شامی فوج دہشت گردی کے خلاف پیش قدمی کرتی ہے، کیمیائی ہتھیاروں کا دعویٰ سامنے آ جاتا ہے۔’

جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب ہوئے حملے سے قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خبردار کیا تھا کہ شام پر حملہ بہت جلد بھی ہو سکتا ہے اور اس میں تاخیر بھی ہو سکتی ہے۔

امریکا، برطانیہ اور فرانس کا کہنا ہے کہ شام پر میزائل حملہ بشارالاسد حکومت کے فوجی و کیمیائی مراکز پر کیا گیا ہے۔ اس کا مقصد اسد انتظامیہ کو نہتے شہریوں کے خلاف کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال سے روکنا ہے۔

شام پر میزائل حملوں کی کارروائی بظاہر مکمل ہو چکی لیکن بشارالاسد کے اتحادی روس نے امریکا کو خبردارکیا ہے کہ واشنگٹن کو اس حملے کے جواب میں ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔

امریکا میں روسی سفیر نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ’اس قسم کے اقدامات نتائج کے بغیر نہیں جانے دیں گے‘۔

امریکا اور اس کے اتحادیوں کا کہنا ہے کہ شام میں بشارالاسد اور اس کے اتحادیوں نے سات برسوں کے دوران 50 مرتبہ کیمیائی حملے کئے ہیں۔

اس سے قبل اگست 2013 میں شامی شہر غوطہ میں سارین گیس کا حملہ کیا گیا تھا۔ واقعے میں سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے تھے۔ تاہم آج تک یہ واضح نہیں ہو سکا کہ میزائل کس نے داغے تھے۔ امریکا اور اتحادی اسے بشارالاسد حکومت کی کارروائی قرار دیتے ہیں جب کہ اسد انتظامیہ اسے تسلیم نہیں کرتی۔

اپریل 2017 میں اقوامِ متحدہ نے کہا تھا کہ شامی علاقے خان شیخون پر کیمیائی حملے میں سرکاری فوج ملوث ہے۔ صدر اسد نے اسے بھی من گھڑت الزام قرار دیا تھا۔

شام کے متنازع ہو جانے والے حکمران بشار الاسد اپنے والد حافظ الاسد کی جگہ 2000 میں اقتدار میں آئے تھے۔

سات سال قبل شام کے صدر بشار الاسد کے خلاف مظاہروں سے شروع ہونے والی خانہ جنگی میں اب تک ساڑھے تین لاکھ سے زیادہ لوگ مارے گئے ہیں۔ متعدد شامی شہر تباہ ہو گئے ہیں۔

انسانی حقوق سے متعلق اداروں کے مطابق جانی نقصان کے اعدادوشمار میں وہ 56,900 افراد شامل نہیں جو غائب ہیں یا پھر ان کے بارے میں کوئی خبر نہیں۔

شامی حکومت کو ایران اور روس کی حمایت حاصل ہے، جب کہ بشارالاسد کے خلاف کام کرنے والے گروہوں کو امریکا، ترکی اور دیگر ممالک کی حمایت حاصل ہے۔

روس نے شام میں فوجی اڈے قائم کر رکھے ہیں اور 2015 سے بشار الاسد کی حمایت میں باغیوں پر فضائی حملے کررہا ہے۔ ایران کے متعلق یہ بات زور دے کر کہی جاتی ہے کہ تہران کے سینکڑوں فوجی شام میں سرگرمِ عمل ہیں اور وہ صدر اسد کی حمایت میں اربوں ڈالر خرچ کر رہا ہے۔

شام میں فوجی کارروائی کرنے والے ترکی کا کہنا ہے کہ بشارالاسد کی حمایت یافتہ کرد ملیشیا کا تعلق ترکی میں دہشتگرد قرار دی گئی تنظیم پی کے کے سے ہے۔

اقوامِ متحدہ نے 2012 کے جنیوا مراسلے کے نفاذ کا مطالبہ کیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ شام میں صلاح و مشورے سے ‘عبوری حکومت’ قائم کی جائے۔ 2014 کے بعد سے اقوامِ متحدہ کی سربراہی میں جنیوا ٹو کہلائے جانے والے مذاکرات کے نو ادوار بےنتیجہ ثابت ہوئے ہیں۔

جنوری 2018 میں روس نے ‘آستانہ کانفرنس’ کا آغاز کیا، تاہم شام کی حزبِ اختلاف کہلانے والی جماعتوں نے اس عمل میں شرکت نہیں کی۔ بشار الاسد کے باغیوں کا مطالبہ ہے کہ پہلےشامی صدر اپنے عہدے سے مستعفی ہوں۔

امدادی اداروں کی رپورٹس کے مطابق شام میں خانہ جنگی کی وجہ سے کم از کم 15 لاکھ شامی مستقل معذروی کا شکار ہوئے ہیں۔ بےگھر ہونے والوں کی کل تعداد 61 لاکھ ہے۔ 56 لاکھ افراد دوسرے ملکوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے ہیں۔

ترکی شامی پناہ گزینوں کی کفالت کرنے والے سب سے بڑے ملک کے طور پر سامنے آیا ہے جہاں شام کے بے گھر افراد کے لئے حکومتی سطح پر خصوصی انتظامات کئے گئے ہیں۔


متعلقہ خبریں