کراچی: ۔۔۔ پھر عمارت گری، چیخ گونجی اور … حادثہ ہو گیا

کراچی: رہائشی عمارت گرگئی، پاک فوج کی انجینئرنگ کور پہنچ گئی

وطن عزیز کے سینے پر ایک اور داغ اس وقت لگا جب لاہور سے کراچی آنے والا قومی ایئرلائن کا طیارہ پی کے – 8303 جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ پہ لینڈنگ کی دوسری کوشش کے دوران ایک تین منزلہ عمارت پہ بنی ہوئی پانی کی ٹنکی سے ٹکرانے کے بعد گر کر تباہ ہوا اور نتیجتاً انسانی المیے نے جنم لیا۔

کراچی: رہائشی عمارت گرگئی، پاک فوج کی انجینئرنگ کور پہنچ گئی

پی آئی اے کا جہاز جس گھر کی چھت پر بنی ہوئی پانی کی ٹنکی سے ٹکرایا وہ ایئرپورٹ سے چند سو میٹردورماڈل کالونی کے علاقے جناح گارڈن میں واقع ہے۔

گنجان آباد علاقے کی تنگ گلیوں میں جب امدادی سرگرمیوں میں ازحد دشواریوں کا سامنا تھا تو وہیں یہ سوال انسانی اذہان میں پیدا ہو رہا تھا کہ ایئرپورٹ کے اتنے نزدیک انسانی بستیوں کا قیام کیا قانونی طور پر جائز ہے؟ کیونکہ جب لوگ بستیاں بساتے ہیں اور رہنے کے لیے گھروں کی تعمیر کرتے ہیں تو پھر بلند و بالا عمارات وجود میں آتی ہیں جو ہوا کے دوش پہ اڑتے جہازوں کے لیے خطرے کا سبب بن سکتی ہیں۔

ہمارے معاشرے میں انسانی آبادی کے معنی نزدیکی کچرے کے ڈھیربھی سمجھے جاتے ہیں جو پرندوں کے لیے حقیقتاً ’دعوت نامے‘ کے مترادف ہوتے ہیں۔ پرندوں کے غول جب کچرے پرحملہ آور ہوتے ہیں تو پھراس بات کے پورے امکانات موجود ہوتے ہیں کہ کوئی بھی پرندہ کسی بھی وقت جہاز کے انجن سے ٹکرا کر اسے ’ڈاما ڈول‘ کرسکتا ہے۔

کراچی: رضویہ کی عمارت میں دراڑ پڑ گئی،مکین باہر نکل آئے

مسلمہ قواعد و ضوابط کے تحت ہر ایئرپورٹ کے رن وے کے دونوں اطراف کے خاتمے کے بعد 2773 میٹر تک کے علاقے کو ’فنل ایریا‘ کہا جاتا ہے۔ یہ وہ علاقہ ہوتا ہے جہاں عمارات تعمیر کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی ہے جب کہ ارد گرد تعمیر ہونے والی عمارات کی بلندی پر بھی قدغنیں عائد ہوتی ہیں لیکن افسوسناک امر ہے کہ کراچی اور لاہور کے ایئرپورٹس کے فنل ایریاز میں اب ایسا لگتا ہے کہ مروجہ قواعد و ضوابط کا خیال نہیں رکھا جا رہا ہے جو نہایت گھمبیر مسائل کو جنم دینے کا سبب بن رہا ہے۔

عملاً اس وقت صورتحال کچھ یوں ہے کہ پاکستان کے دونوں بڑے بین الاقوامی ہوائی اڈوں یعنی کراچی کے جناح انٹرنیشنل ایئر پورٹ اور لاہور کے علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے قریب اتنی آبادیاں قائم ہو چکی ہیں کہ شاید ان کا شمار بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ٹھہرے۔

ماضی میں متعدد مواقع پر ہوابازی سے وابستہ ماہرین ایئرپورٹس کے اطراف تعمیر ہونے والی عمارات کے حوالے سے اپنے خدشات کا اظہارکرتے رہے ہیں۔

عالمی ہی نہیں ملکی قوانین کے تحت بھی ایئرپورٹس کے نزدیک عمارات تعمیر کرنے کی اجازت نہیں ہے اورقواعد کے مطابق کم از کم 15 کلو میٹر کا فاصلہ ہونا ضروری ہے بصورت دیگر سول ایوی ایشن سے این او سی لینا لازمی ہے۔

کراچی:کم رقبے پر تعمیر بلند عمارتوں کیخلاف آپریشن جاری

کراچی طیارہ حادثے کے بعد اس حوالے سے متعدد سوالات نے جنم لیا ہے لیکن ماضی کی روایات کو اگر پیش نظر رکھا جائے تو باآسانی کہا جا سکتا ہے کہ پیدا ہونے والے سوالات کے جوابات کبھی نہیں ملیں گے کیونکہ یہ ہمارا وطیرہ ہے کہ جب کوئی نیا حادثہ وقوع پذیر ہوتا ہے تو گلے سڑے، فرسودہ اور بوسیدہ نظام پر سوال ثبت ہوتا ہے مگر پھروقت کی دھول کچھ دنوں میں سارے سوالات کو ڈھانپ لیتی ہے اور زندگی پراپنی پرانی بے ڈھنگی چال چلنا شروع کردیتی ہے تاوقتیکہ پھر کوئی نیا حادثہ جنم نہ لے۔

یادش بخیر! لاہورمیں بھاٹی گیٹ، مظفر گڑھ ، سکھر کا گھنٹہ گھر، ملتان کی سہہ منزلہ عمارت اور شہر قائد میں گولیمار، رنچھوڑ لائن، جعفر طیار سوسائٹی، ٹمبر مارکیٹ اور نیلم کالونی سمیت دہلی کالونی کسے یاد نہیں ہوں گے کہ جب وہاں عمارات زمیں بوس ہوئیں، چلتے پھرتے انسان لمحوں میں لقمہ اجل بن گئے اور کتنوں کی زندگی بھر کی جمع پونجی برباد ہو گئی۔

کراچی: ۔۔۔ پھر عمارت گری، چیخ گونجی اور ... حادثہ ہو گیا

عمارات کے سانحات پر حسب معمول سوالات کی متعدد پوٹلیاں کھولی گئیں لیکن پھر وہی ڈھاک کے تین پات والی مثال کہ سب پہ وقت نے گرد جمادی حالانکہ سانحہ گلبہار کے فوری بعد جب بے پناہ تنقید کا سلسلہ شروع ہوا تو کلفٹن کنٹونمنٹ بورڈ نے دہلی کالونی میں 12 منزلہ غیر قانونی رہائشی عمارت کے انہدام کا کام شروع کیا۔

سانحہ گلبہار کے متاثرین کو عمارت تعمیر کرکے دوں گا،پی ٹی آئی رہنما

حقیقتاً اس وقت عقل چکرا کر رہ گئی تھی کہ 160 گز کے پلاٹ پر 24 فلیٹوں اور چار دکانوں والی 12 منزلہ عمارت تعمیر کیسے کی گئی ہو گی؟ ۔۔۔ لیکن پھر چشم فلک نے دیکھا کہ یہ عمارت تعمیر کیسے اورکیونکر ہو گئی تھی؟ جیسے بنیادی سوالات کے جوابات دیے بنا وہ عمارت ملبے کا ڈھیر بنا دی گئی۔

عمارت کے انہدام کے وقت موقع پر موجود انتظامی افسر ذوالفقار خشک کا کہنا تھا عمارت بلڈنگ پلان کی منظوری کے بغیر تعمیر کی گئی تھی۔

یہاں یہ ذکر بے جا نہ ہو گا کہ 27 فروری کو سندھ ہائی کورٹ میں غیر قانونی تعمیرات کیس کی سماعت کے دوران جناب جسٹس حسن اظہر نے ریمارکس میں استفسار کیا تھا کہ  کبوتر کے دڑبوں جیسی دہلی کالونی میں گیارہ اور 12 منازل والی عمارات آخر بن کیسے گئیں؟

عدالت کو اس موقع پر ایس بی سی اے نے بتایا کہ اس کی ذمہ داری سندھ حکومت پرعائد ہوتی ہے۔ حیرت انگیز امر ہے کہ ایس بی سی اے والے سندھ حکومت کو مورد الزام ٹہرارہے تھے جب کہ پاکستان میں کرونا کی وبا عام ہونے سے کچھ روزقبل وزیراعلیٰ سندھ سید مرادعلی شاہ نے ایک اعلی سطحی اجلاس میں غیر قانونی عمارات گرانے کے احکامات جاری کیے تھے جو مہلک وبا کے پھیلنے کے سبب ہوا میں کہیں تحلیل ہو گئے ہیں۔

کراچی: کھارادر میں عمارت گرنے سے میاں بیوی جاں بحق، بچیاں زخمی

میئر کراچی وسیم اختر خاصے پرجوش انسان ہیں اور کافی متحرک بھی رہتے ہیں۔ اس ضمن میں ان کا کہنا ہے کہ چھوٹے پلاٹوں پر بلند و بالا عمارات کی تعمیر اورپلازے بنانے کا خمیازہ ہمیشہ شہریوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔

وہ بحیثیت میئر کراچی اعتراف کرتے ہیں کہ سینکڑوں رہائشی عمارات کو بغیر کسی منصوبہ بندی کے کمرشلائز کردیا گیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ چھوٹے اور کم ترقی یافتہ علاقوں میں عمارات کی تعمیر میں نہ صرف قواعد وضوابط کو نظر انداز کردیا جاتا ہے بلکہ ان میں ناقص میٹریل بھی استعمال کیا جاتا ہے جو حادثات کا بنیادی سبب بنتا ہے۔

وسیم اختر کا الزام ہے کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی نے بلند وبالا عمارات کی تعمیر کے اجازت نامے جاری کرکے شہر کو کنکریٹ کا جنگل بنا دیا ہے۔ انہوں نے اس خدشے کا اظہار بھی کیا کہ اگر اس عمل کو سنجیدگی سے نہ روکا گیا اورغیرقانونی اجازت نامے منسوخ نہ کیے گئے تو ہمیں مستقبل میں بھی ایسے نقصانات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

کراچی میں تین منزلہ عمارت گر گئی، 13 افراد جاں بحق

بیشک! میئر کراچی کی حیثیت سے وسیم اختر کے خدشات درست ہیں اوران سے کوئی ذی شعور انکار نہیں کرسکتا ہے لیکن یہ استفسار تو کیا جا سکتا ہے کہ گزشتہ تین دہائیوں کے دوران جب ان کی اپنی جماعت کراچی اور حیدرآباد کی بلاشرکت غیرے حکمران تھی تو کیا دونوں شہروں کی حالت قدرے مختلف تھی؟ کیا اس وقت رہائشی عمارات کو کمرشلائز نہیں کیا گیا؟ اوراس طرح بنیادی شہری سہولتوں کے فقدان کو یقینی نہیں بنایا گیا؟

اس صورتحال میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ سیاستدان اپنی سیاست چمکاتے ہیں، ذمہ داران حقائق سے آنکھیں چراتے ہیں اور بے قصور عوام اپنی جان و مال گنواتے ہیں خواہ حادثہ طیارہ گرنے کا ہو یا عمارت کے زمیں بوس ہونے کا ہو۔

یہاں یہ امر مزید افسوس کا باعث ہے کہ مسلسل حادثات کے باوجود کراچی میں غیر قانونی عمارات کی تعمیر کا سلسلہ بنا کسی رکاوٹ کے جاری و ساری ہے۔ رپورٹس کے مطابق 40‘ 60‘80 اور 120 گز کے پلا ٹوں پر بلند و بالا عمارات ہنوزتعمیر کی جارہی ہیں۔

سکھر: تین منزلہ عمارت زمیں بوس ہوگئی، تین افراد جاں بحق متعدد زخمی

لیا قت آباد‘ فیڈرل بی ایریا‘ نا ظم آباد، گارڈن ایسٹ سمیت شہر کے مختلف علاقوں میں چھوٹے چھوٹے پلاٹوں پرتعمیرات کے سلسلے جاری ہیں۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق صرف لیاقت آباد ٹاون میں اس وقت 100 سے زائد پلاٹوں پرایسی تعمیرات ہو رہی ہیں۔ لیاقت آباد کے بعد گلبرگ ٹاؤن کا نمبر آتا ہے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے کچھ عرصہ قبل 500 سے زائد تجاوزات اورغیر قانونی تعمیرات کے خلاف آپریشن کے احکاما ت دیے گئے تھے جس کے کافی بہتر نتائج نکلے تھے اور شہر قائد میں جہاں گھٹن تھی، ایک حبس کی سی کیفیت تھی اس کا زور ٹوٹا تھا اورمحسوس ہوا تھا کہ شہر نے بھی سانس لی ہے۔

سانحہ گلبہار کے متاثرین کو عمارت تعمیر کرکے دوں گا، پی ٹی آئی رہنما

یہ درست ہے کہ عدالت عظمیٰ کے حکم پر ہونے والے کامیاب آپریشن کے بعد شہر کے متعدد فلاحی اداروں کے نام پر حاصل کی جانے والی ایسی زمینیں خالی ہوئی تھیں جو برسوں سے شادی ہالوں، فارم ہاؤسز سمیت دیگر کمرشل سرگرمیوں کا مزکز بنی ہوئی تھیں لیکن کسی بھی ذمہ دار نے یہ نہیں بتایا تھا کہ غیر قانونی تعمیرات کا اصل ذمہ دار کون تھا؟ اور ہے؟

کیا یہ امر حیران کن نہیں گردانا جائے گا کہ کبھی بھی زیر تعمیر عمارت سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی نگاہوں میں نہیں آتی ہے؟ ایسی زیر تعمیر عمارت سے دیگر متعلقہ محکمے بھی لا علم ہی رہتے ہیں حالانکہ بجری کی چار تگاریاں اگر گھر کے سامنے کوئی عام شہری گرادے تو علاقہ پولیس سمیت ایک درجن محکموں کے اہلکار معلوم کرنے پہنچ جاتے ہیں مگر بلند و بالا عمارات کی تعمیر پر چپ سادھے بیٹھے ہوتے ہیں۔ تو کیا واقعتاً سب کچھ لاعلمی کا نتیجہ ہوتا ہے اور یا پھر کچھ ایسا ہے جس کی پردہ داری کی جاتی ہے؟

کراچی: عمارت گرنے سے ایک ہی خاندان 9 افراد کھو بیٹھا، ورثا غم سے نڈھال

اس ضمن میں استفار پر ’آباد‘ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ کثیر المنزلہ عمارات پوری دنیا میں قائم ہوتی ہیں جو وقت کی ضرورت ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ہاں بھی یہ سلسلہ ہے بلکہ اگر آپ حبیب بینک پلازہ کی بات کریں تو یہ 23 منزلہ عمارت قیام پاکستان کے بعد ہی تعمیر ہوئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ بلند و بالا عمارات کی تعمیر کے سلسلے کوملک میں نیا نہیں کہا جا سکتا ہے۔

آباد کے ترجمان کا مؤقف ہے کہ ملٹی اسٹوری بلڈنگز کی تعمیر کے حوالے سے کراچی معروف ہے اور یہاں گزشتہ سالوں میں تیزی سے بلند عمارات تعمیر کی گئی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کسی بھی عمارت کی تعمیر کے لیے سول ایوسی ایشن کی اتھارٹی اور سروے آف پاکستان سمیت متعدد اداروں سے اجازت لینا پڑتی ہے۔

ترجمان آباد نے یہ حیرت انگیز انکشاف بھی کیا کہ ایک عمارت کی تعمیر کے لیے بلڈر کو 17 مختلف اداروں سے این او سی درکار ہوتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سارا ملبہ ایک بلڈر پہ ڈالنا غلط ہے اور اس تاثر میں بھی کوئی صداقت نہیں ہے کہ ہر بلڈر بے ایمان یا غلط ہوتا ہے۔

ایک سوال پرانہوں نے کہا کہ زیادہ تر وہ عمارات زمیں بوس ہوئی ہیں جو کسی ایک مکان مالک نے اپنے اختیارات و تعلقات استعمال کرتے ہوئے تعمیر کی۔ انہوں نے کہا کہ گرنے والی عمارات کب، کیسے اور کیونکر تعمیر ہوئیں؟ یہ تو متعلقہ ادارے ہی بتا سکتے ہیں۔

دنیا کے کئی ممالک سے بڑے شہر کراچی میں اب بات چار یا چھ منزلہ عمارت تک نہیں رہ گئی ہے بلکہ درجن اور اس سے زائد منازل تک پہنچ گئی ہے۔

کراچی: گلبہار میں گرنے والی عمارت کے ذمہ داران کا تعین نہیں ہوسکا

ناردرن بائی پاس سے کلفٹن کے ساحل تک اور سپرہائی وے کے آغاز سے لے کر کیماڑی تک چاروں تک پھیلنے کے بعد اب یہ شہر سطح زمین سے اُٹھ کر فلک بوس ہونے لگا ہے لیکن اس میں تشویش کا پہلو یہ ہے کہ متعلقہ ادارے جن کا کام عمارات کی مضبوطی کو یقینی بنانا ہے تاکہ انسانی جانوں کا نقصان نہ ہو وہ غفلت میں مبتلا دکھائی دیتے ہیں اوریا پھر اپنے غافل ہونے کا تاثر جان بوجھ کر دیتے ہیں۔

اہلیان کراچی کماحقہ واقف ہیں کہ 1980 کی دہائی تک بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کافی حد تک فعال نظر آتی تھی لیکن پھر یوں ہوا کہ اس کی فعالیت بوجوہ ’محدود‘ ہوتی چلی گئی، شہر کنکریٹ کے جنگل میں تبدیل ہونے لگا اور سانس لینا بھی دوبھر ہو گیا مگر کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔

غیر جانبدار مبصرین کا کہنا ہے کہ شہر کا انتظام کئی اداروں کے پاس ہونے کی وجہ سے ازحد مشکلات درپیش ہیں لیکن زمین و جائیداد کا کاروبار کرنے والوں کےلیے یہی عمل موافق ہے کیونکہ انہیں پھلنے پھولنے کے زیادہ مواقع میسر آتے ہیں۔

چھوٹے پلاٹس پر دو منزلہ سے زائد تعمیرات نہیں ہونی چاہئیں،ریسکیو حکام

رپورٹس بتاتی ہیں کہ مختلف تعمیراتی ادارے متعدد طریقہ کار اپنا کر شہر کے مختلف اداروں سے زمینیں الاٹ کراتے ہیں اور یا پھر پرانی رہائشی اسکیموں کو تجارتی اسکیموں میں تبدیل کرا لیتے ہیں جس کے بعد دو منزلہ عمارت کئی منزلہ پلازے میں تبدیل ہو جاتی ہے۔

غضب خدا کا کہ ایسا کرتے ہوئے یہ بھی نہیں سوچا جاتا ہے کہ اس سے پانی، بجلی، سیوریج اور گیس سمیت دیگر بنیادی ضروریات کے مسائل بھی جنم لیں گے جن سے پورا علاقہ متاثر ہوگا۔

یہاں ایک اورمسئلہ بھی اپنی جگہ پوری شدت سے موجود ہے کہ پرانے شہر سمیت مختلف علاقوں میں مخدوش عمارات موجود ہیں جن میں رہائش پذیر افراد کی زندگیاں ہر وقت خطرات سے دوچار رہتی ہیں لیکن متعلقہ ادارے اس سلسلے میں بھی خاموشی اختیار کیے ہوئے بیٹھے ہوتے ہیں۔

ایسی کسی مخدوش عمارت کا جب کوئی حادثہ رونما ہوتا ہے تو فوراً فائلوں میں موجود کاغذات کے پلندوں سے ایک کاغز نکال کر دکھا دیا جاتا ہے کہ ہم نے تو کئی مہینے پہلے ہی خطرے سے آگاہ کردیا تھا لیکن مکینوں نے بات ماننے سے انکار کیا تھا۔

سکھر: تین منزلہ عمارت زمیں بوس ہوگئی، تین افراد جاں بحق متعدد زخمی

یہاں ملین ڈالر کا سوال یہ ہے کہ جب حکومت اور سرکاری اداروں کا کام لوگوں کی جان و مال اورعزت و آبرو کا تحفظ یقینی بنانا ہے تو وہ اپنے شہریوں کو خطرناک قرار دی جانے والی عمارات میں رہنے ہی کیوں اور کیسے دیتے ہیں؟

اس میں شک نہیں ہے کہ کئی گھرانے منتقلی میں پس و پیش کرتے ہیں لیکن اس کی بنیادی وجہ معاشی تنگی ہوتی ہے اور وہ صرف اس لیے مخدوش عمارت کو چھوڑنے پہ رضامند نہیں ہوتے کہ ان کے پاس سر چھپانے کو دوسری جگہ نہیں ہوتی ہے تو سرکاری اداروں اور حکومت کو چاہیے کہ وہ ایسے خاندانوں کے لیے کوئی جگہ مختص کردیں اورکچھ قرض فراہم کردیں تاکہ متاثرین رہ کر اپنا ٹھکانہ بنالیں اور کسی بھی بڑے حادثے سے خود کو محفوظ رکھ سکیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ شہر کا ایک ماسٹر پلان تیار کیا جائے جس میں وقتاً فوقتاً ردو بدل ہو اور ایک بااختیار ادارہ ہو جو شہر کے کسی بھی علاقے میں عمارت کی تعمیر کے لیے اجازت نامہ جاری کرنے کا مجاز ہو۔ حالات و واقعات کا تقاضہ ہے کہ ایسے ایماندار افسران کی تعیناتیاں کی جائیں جو شہر کو اپنا سمجھتے ہوں۔

اس میں شک نہیں ہے کہ پورا نظام فرسودہ ہو چکا ہے اوراسے ازسر نو تعمیر کرنے میں مدت درکار ہو گی لیکن تاریخ کا سبق یہ بھی ہے کہ پہلے نقطہ لگایا جاتا ہے اور پوری لکیر اس کے بعد ہی کھنچتی ہے تو کیا ہم نکتہ لگانے کے لیے تیار ہیں؟ کیونکہ پوری لکیر کھینچنے کی باری اس کے بعد ہی آئے گی۔

مظفر گڑھ: عمارت زمیں بوس، بچوں اور خواتین سمیت آٹھ افراد جاں بحق

درج بالا تحریر ابھی قلمبند ہی کی تھی کہ اچانک ٹی وی اسکرین پہ خبریں آنے لگیں کہ لیاری کھڈا مارکیٹ میں واقع ایک چھ منزلہ رہائشی عمارت زمیں بوس ہو گئی ہے۔

ابتدائی اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ امدادی رضاکاروں نے عمارت کے ملبے سے ایک نعش نکال لی ہے اور چند زخمیوں کو علاج معالجے کے لیے اسپتال بھی منتقل کردیا ہے جب کہ مزید زخمیوں کی تلاش کا کام جاری ہے۔

میں چشم تصور سے دیکھ سکتی ہوں کہ ہمارے سرکاری ادارے اورامدادی اداروں کے رضاکاروں سمیت اہل محلہ کس قدر تندہی سے زخمیوں کو اسپتال منتقل کررہے ہوں گے اور متاثرین کی مدد کے لیے شہر کے مخیر حضرات حسب روایت بھرپور حصہ لیں گے، عمارت کے ملبے سے محفوظ رہ جانے والا سامان بھی کسی حد تک نکال لیا جائے گا لیکن وہ ارمان جو ماں باپ کے دل میں اولاد کے لیے رہے ہوں گے، وہ خواہشات جو اولاد نے اپنے ضعیف والدین کے لیے دل سے لگا کر رکھی ہوں گی، وہ آرزوئیں جو بہنوں کے دلوں میں بھائیوں کے لیے جاگتی رہی ہوں گی اور وہ تمنائیں جو بھائیوں نے بہنوں کے لیے کی ہوں گی ان کا ملبہ کون اور کیسے اٹھائے گا؟ کیونکہ وہ تو کسی کو دکھائی بھی نہیں دیتے ہیں لیکن جب کوئی گھر گرتا ہے تو سب سے پہلے انہی کا قتل ہوتا ہے مگر ایف آئی آر درج نہیں ہوتی ہے کیونکہ ان کا کوئی والی وارث نہیں ہوتا ہے۔

سپریم کورٹ کا ڈی جی سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو فوری طور پر ہٹانے کا حکم

میں صرف سوچ ہی سکتی ہوں کہ جب عمارت گررہی ہو گی تو ایک چیخ ضرور گونجی ہو گی جس میں بے بسی کے ساتھ تمام تمنائیں، آرزوئیں، خواہشات اور جذبات سسکیاں بن کر بہہ گئے ہوں گے اور پھر ان کا بھی دم گھٹ گیا ہوگا کیونکہ عمارت زمیں بوس ہوچکی تھی اور حادثہ وقوع پذیر ہوگیا تھا۔


متعلقہ خبریں