شہبازشریف نے بیرون ملک اثاثوں کے متعلق جواب جمع کروا دیا


اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نیب لاہور سے واپس روانہ

اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نیب لاہور سے واپس روانہ

Posted by HUM News on Tuesday, June 9, 2020

لاہور: مسلم لیگ ن کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہبازشریف آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس میں جواب جمع کرانے کیلئے قومی احتساب بیورو(نیب) میں پیش ہوئے۔

ذرائع کے مطابق شہباز شریف نے 13 سوالوں پر مشتمل جواب نیب کی تفتیشی ٹیم کو دیا اور بیرون ملک بنائے گئے اثاثوں سے متعلق تحریری جواب بھی جمع کروایا ہے۔

شہباز شریف نے انیل مسرت سے لیے گئے قرض کی تفصیلات بھی فراہم کی ہیں۔ نیب میں پیشی کے دوران شہباز شریف سے پوچھا گیا کہ بتائیں بارکلے بینک سے کتنا قرض لیا۔ شہباز شریف نے ہارون یوسف اور عاصمہ داڑ لیے گئے قرض کی تفصیلات بھی بتائیں۔

نیب ذرائع کے مطابق شہباز شریف کے روبرو فنانشل مانیٹرنگ یونٹ کی رپورٹ رکھی گئی اور 4 مشکوک ٹرانزیکشن سے متعلق بھی پوچھا گیا۔

گزشتہ طلبی پر شہباز شریف نے اپنے نمائندے محمد فیصل کے ذریعے اثاثہ جات کے حوالے سے تفصیلی جواب جمع کروایا۔

یہ بھی پڑھیں: لاہور ہائی کورٹ نے نیب کو شہبازشریف گرفتاری سے روک دیا

نیب لاہورمیں عدم پیشی پر قومی احتساب بیورو نے پولیس کی بھاری نفری کے ہمراہ قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف کے گھر چھاپہ مارا تھا۔

سابق وزیراعلیٰ پنجاب کی گرفتاری کے لیے نیب کی ٹیم نے جاتی امرا سمیت مختلف جگہوں پر چھاپے مارے تھے۔ نیب نے ماڈل میں شہبازشریف کی رہائش گاہ پر چھاپہ مارا لیکن وہ گھر پر موجود نہیں تھے۔

مسلم لیگ ن کے مرکزی صدر شہباز شریف پر آمدن سے زائد اثاثے بنانے اور منی لانڈرنگ کا الزام ہے۔ نیب نے شہباز شریف سے وارثت میں موصول ہونے والی جائیداد کی تفصیلات طلب کر رکھی ہیں۔

شہباز شریف سے سوال کیا ہے کہ سال 1998 سے سال 2018 کے دوران فیملی کے اثاثے بڑھ کر 549 ارب ہوئے۔ پبلک آفس ہولڈر ہونے کی حیثیت سے ان اثاثوں میں اضافے کی وضاحت دیں۔

یہ بھی پڑھیں: شہباز شریف اور حمزہ شہبازپر فردجرم عائد کرنےکیلئےتاریخ مقرر

نیب نے استفسار کیا کہ بیرون ملک کون کون سے اثاثے اور بینک اکاؤنٹس موجود  ہیں ان کی تفصیلات فراہم کی جائیں۔ سال 2005 سے سال 2007 کے دوران لیے جانے والے قرض کی تفصیلات فراہم کی جائیں۔

شہباز شریف سے سوال کیا گیا ہے کہ فیملی کو دیے جانے والے اور موصول ہونے والے تمام تحائف کی تفصیلات فراہم کی جائیں اور سال 2008 سے سال 2019 کے دوران زرعی آمدنی کی تفصیلات بھی فراہم کی جائیں۔


متعلقہ خبریں