عدالت نے وفاقی حکومت کو شوگر ملز کے خلاف کارروائی سے روک دیا


اسلام آباد: اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی حکومت کو آئندہ سماعت تک شوگر ملز کے خلاف کارروائی سے روک دیا۔

چینی کی قیمتوں میں اضافہ پرانکوائری کمیشن کی رپورٹ کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کیس کی سماعت کی۔

شوگر ملز ایسوسی ایشن نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے مشروط حکم امتناع حاصل کر لیا۔ عدالت نے آئندہ سماعت تک ملک بھر میں عام آدمی کے لیے چینی 70 روپے کلو بیچنے کا حکم دے دیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی حکومت، واجد ضیاء اور شہزاد اکبر کو نوٹس جاری کر دیا جبکہ سیکرٹری داخلہ اور انکوائری کمیشن کے ارکان کو بھی نوٹس جاری کر دیے گئے۔

ایگزیکٹو کے اختیارات استعمال کرنے کے حوالے سے شوگر ملز کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آئین میں وفاق اور صوبوں کے اختیارات کا الگ الگ ذکر موجود ہے۔ فروری میں کارروائی کے لیے ایڈہاک کمیٹی بنائی گئی اور کمیٹی نے وفاقی حکومت کو لکھا کہ کمیشن کو قانونی کور کیا جائے۔

مخدوم علی خان نے کہا کہ انکوائری کمیشن نے شوگر ملز کے فرانزک آڈٹ کے لیے وفاقی حکومت کو لکھا اور جیسی کمیٹی نے تجویز دی تھی ویسے ہی وہ کمیشن بن گیا۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ اس کمیشن نے پھر کیا کہا چینی کی قیمت کیوں بڑھی ؟

مخدوم علی خان نے مؤقف اختیار کیا کہ کمیشن نے 324 صفحات کی رپورٹ میں بہت زیادہ وجوہات بیان کی ہیں جبکہ کمیشن نے سفارش کی کہ ایف بی آر، ایف آئی اے، نیب کو ملزمان کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ کمیشن کے مطابق شوگر بہت زیادہ موجود تھی لیکن ماحول ایسا بنایا گیا کہ شوگر کم ہے اور وہ شارٹ ہو گی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جتنی آپ کی پروڈکشن ہوتی ہے اس میں سے عام عوام کے لیے کتنا ہوتا ہے۔ چینی عام آدمی کی ضرورت ہے حکومت کو بھی اس حوالے سے ہی اقدامات اٹھانے چاہییں۔ سادہ سی بات ہے کہ عام آدمی کا بنیادی حق ہے 30 فیصد چینی عام آدمی کے لیے ہوتی ہے۔

سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ عام آدمی اور کمرشل استعمال کی چینی کی قیمت کو کمیشن نے الگ الگ نہیں کیا۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے استفسار کیا کہ اگر کمیشن نے عام آدمی کو چینی کی دستیابی کے حوالے سے کچھ نہیں کیا تو پھر کیا کیا ؟ حکومت کی تشویش کمرشل ایریا تو نہیں ہونا چاہیے عام عوام ہونی چاہیے۔ دو سال پہلے چینی کی قیمت کیا تھی۔

مخدوم علی خان نے مؤقف اختیار کیا کہ کمیشن نے عام عوام تک چینی کی دستیابی کے حوالے سے کچھ نہیں کہا۔ نومبر 2018 میں چینی کی قیمت 53 روہے تھی۔

انہوں نے کہا کہ کمیشن نے اپنے ٹی او آر سے باہر جاکر کارروائی کی، معاون خصوصی اور دیگر وزرا کے ذریعے ہمارا میڈیا ٹرائل کیا جا رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے وارنٹ گرفتاری جاری

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم حکومت کو نوٹس کر کے پوچھ لیتے ہیں لیکن آپ اس وقت تک 70 روپے کی قیمت پر چینی بیچیں۔ آپ کو شرط منظور ہے تو ہم آئندہ سماعت تک حکومت کو کارروائی سے بھی روک دیتے ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عام آدمی کو بنیادی حقوق کیوں نہیں دے رہے۔

چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا وفاق عدالت کے آپشن کی مخالفت کرے گا ؟ جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر نے جواب دیا کہ مخالفت نہیں کریں گے۔

عدالت نے کیس کی سماعت 10 دن کے لیے ملتوی کر دی۔


متعلقہ خبریں