کورونا کا معیشت پر شدید دباو، 7 دہائیوں میں پہلی بار قومی ترقی کی شرح منفی میں چلی گئی



اسلام آباد: کورونا نے پاکستانی معیشت پر شدید دباو ڈالا ہے، 7 دہائیوں میں پہلی بار قومی ترقی کی شرح منفی میں چلی گئی۔

حکومت کی جانب سے جاری کردہ اقتصادی سروے کے مطابق کورونا وبا سے ملکی معیثت کو 3ارب روپے کا نقصان ہوا، جبکہ 10 ماہ میں مہنگائی کی شرح 11.2 فیصد رہی۔ فی کس آمدنی میں 16ہزار روپے کی کمی واقع ہوئی۔

حکومت پاکستان نے قومی اقتصادی سروے برائے مالی سال2019-20 پیش کردیا ہے جس میں بتایا گیا کہ حکومت نے 5 ہزارارب روپے کےقرضے واپس کیے ہیں اور آئندہ سال تین ہزار ارب واپس کیے جائیں گے۔رواں سال کے پہلے 9ماہ میں بیرونی قرض میں 3ارب  ڈالر کا اضافہ ہوا۔

مشیر خزانہ حفیظ شیخ نے قومی اقتصادی سروے پیش کیا جس میں بتایا کہ حکومت نے اپنے اخراجات کم کرکے عوام کو ریلیف دینے کی پالیسی اپنائی جو کافی حد تک کامیاب رہی۔

اقتصادی سروے کے مطابق وفاقی حکومت نے بجٹ خسارے پرقابو پانے کیلئے2080 ارب روپے کا قرض لیا۔مارچ2020 کےآخرمیں مقامی قرض22 ہزار478ارب روپے رہا۔ رواں سال کے پہلے 9ماہ میں بیرونی قرض میں 3ارب  ڈالر کا اضافہ ہوا۔

جولائی2019 سے مارچ2020 کے دوران حکومتی آمدنی میں30اعشاریہ9 فیصد اضافہ ہوا۔ مجموعی ترقیاتی اخراجات میں9ماہ کےدوران24اعشاریہ9فیصداضافہ ہوا۔

یہ بھی پڑھیں: قومی اقتصادی کونسل نے 1324 ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ منظور کر لیا

مجموعی اخراجات میں15اعشاریہ8فیصداضافہ ہوا۔ پہلے10ماہ کے دوران100انڈیکس میں اعشاریہ6ایک فیصد اضافہ ہوا۔ جولائی سے اپریل کےدوران مہنگائی کی شرح11اعشاریہ2 فیصد رہی۔

رواں سال جنوری میں مہنگائی کی شرح14اعشاریہ6 فیصد تک پہنچ گئی تھی۔ اپریل میں مہنگائی کی شرح8 اعشاریہ5 فیصدتک گرگئی۔ جولائی سے اپریل کے دوران برآمدات میں 2اعشاریہ4فیصد کمی ہوئی۔


اقتصادی سروے کے مطابق رواں مالی سال کے10ماہ میں 19اعشاریہ7 ارب ڈالرکی برآمدات ہوئیں اور  درآمدات میں16 اعشاریہ9 فیصد کمی ہوئی اور مجموعی طور پر ایک ارب ڈالرکی درآمدات کی گئیں۔

رواں مالی سال کے پہلے10ماہ میں ترسیلات زرمیں 5اعشاریہ 5 فیصداضافہ ہوا اور 18اعشاریہ8ارب ڈالرکی ترسیلات زرآئیں۔ پاکستان کے کرنٹ اکاوَنٹ خسارے میں ریکارڈ73اعشاریہ ایک فیصد کمی ہوئی۔

یہ بھی پڑھیں: بجٹ 2020-21 میں شعبہ صحت پر خصوصی توجہ دینے کا فیصلہ 

جولائی2019 سے مارچ2020 کے دوران کرنٹ اکاوَنٹ خسارہ جی ڈی پی کا ایک اعشاریہ ایک فیصد رہ گیا۔

اقتصادی سروے کے مطابق مکمل لاک ڈاؤن کی صورت میں ایک کروڑ85لاکھ افراد بےروزگارہوں گے۔ درمیانے لاک ڈاؤن سے ایک کروڑ23لاکھ افراد بےروزگار ہوسکتے ہیں جب کہ نرم لاک ڈاؤن سے 14لاکھ افرادکی نوکریاں ختم ہوں گی۔

کورونا سے پہلےمعیشت 3 فیصد کی شرح سے بڑھنےکی توقع تھی لیکن پاکستانی معیشت کو3 ہزار ارب روپے کانقصان پہنچا ہے اور مستحکم ہوتی ہوئی معیشت کو دھچکا لگا ہے۔

زرعی شعبے کی ترقی کی شرح 2 اعشاریہ نو آٹھ فیصد رہنے کا امکان ہے اور رواں مالی سال معاشی شرح نمو منفی 0.4 فیصد رہی ہے۔ شعبہ زراعت کی ترقی اورکھاد کی قیمت کم کرنےکےلیے50 ارب روپےمختص کیے گئے۔

یہ بھی پڑھیں: آئندہ بجٹ میں نئے ٹیکس نہ لگانے کا فیصلہ

چاول کی فصل کی پیداوار میں 2 اعشاریہ نو فیصد اضافہ ہوا اور 74 لاکھ ٹن رہی۔ کپاس کی پیداوار میں چھ اعشاریہ نو فیصد کمی ہوئی۔ روئی کی 91 لاکھ 78 ہزار گانٹھیں حاصل ہوئیں۔ گنے کی پیداوار میں اعشاریہ چار فیصد کمی ہوئی۔

لائیو اسٹاک سیکٹر میں4 اعشاریہ پانچ سات فیصد اضافہ ہوا۔ جنگلات کے شعبے میں دو اعشاریہ دو نو فیصد ترقی ہوئی۔ ٹرانسپورٹ کے شعبے کی گروتھ منفی 7.1 فیصد رہی اور خدمات کے شعبے کی گروتھ بھی منفی رہی۔

ہول سیل اور پرچون کاروبار کی ترقی کی شرح میں 3 اعشاریہ 42 فیصد کمی ہوئی۔ فناس اور انشورنش سیکٹر میں اعشاریہ 79 فیصد کی بہتری آئی۔

ان کا کہنا تھا کہ 20ارب روپے کے خسارے کو 3ارب تک لے آئے ہیں۔ بجٹ خسارے میں خاطر خواہ کمی کی گئی۔ فوج نے بھی دفاعی بجٹ میں کمی کی جس پر ہم  جنرل باجوہ کے مشکور ہیں۔

حکومت نے موثرحکمت عملی سے5 ہزارارب روپےکےقرضے واپس کیے۔ ٹیکس وصولی میں 17 فیصداضافہ ہوا۔ایک کروڑ 60 لاکھ خاندانوں کو نقد رقم دینے کا فیصلہ کیا۔ حکومت نے احساس پروگرام کے لیے رقوم مختص کیں۔

انہوں نے بتایا کہ امپورٹ میں کمی آنے سے محصولات میں بھی کمی ہوئی اور رواں مالی سال جی ڈی پی گروتھ منفی اعشاریہ تین آٹھ فیصد رہنے کا امکان ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مالی خسارہ جولائی سے مارچ تک جی ڈی پی کا 4 فیصد رہا۔

خدمات کے شعبے کی گروتھ بھی منفی رہی۔ سروسز سیکٹر کی ترقی کی شرح اعشاریہ پانچ نو فیصد رہے گی۔ یوٹیلیٹی اسٹورز کے لیے 50 ارب روپے اور نیا پاکستان ہاؤسنگ منصوبہ کےلیے 30 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ گندم خریداری کےلیے 280 ارب روپے رکھے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: موجودہ حالات کو سامنے رکھ کر نئے بجٹ کی تیاری کر رہے، ڈاکٹر حفیظ شیخ

صنعتی شعبے کی ترقی منفی 7اعشاریہ سات آٹھ فیصد رہنے کا امکان ہے۔ گزشتہ سال فی کس آمدنی 2 لاکھ 24 ہزارکے ہدف کےبرعکس 2 لاکھ 14 ہزاررہی۔ رواں مالی سال کے دوران مہنگائی 8.5 کے بجائے 9.1 فیصد رہی۔

بجلی کی پیداواراورگیس کی تقسیم 1.5 ہدف کے برعکس 17.7 فیصد رہا۔

انہوں نے بتایا کہ معاشی بحران اس حکومت کو ورثے میں ملا تھا اور ماضی میں ہمارے اخراجات آمدنی سے زیادہ ہوتے تھے۔ ہم نے حکومتی اخراجات پر قابو پایا۔ ہم نے صورتحال سے نمٹنے کے لیے تمام وسائل استعمال کیے۔

مشیر خزانہ نے بتایا کہ ڈالر سستا رکھنے کی وجہ سے برآمدات میں اضافہ ہوگیا ہے۔ ہمیں دیکھنا چاہیے حکومت نے قرضے کیوں لیے۔ پی ٹی آئی کی حکومت نے قرض واپس کرنے کیلئے قرض لیا۔

حفیظ شیخ نے بتایا کہ اس حکومت نے پورے سال اسٹیٹ بینک سے کوئی بھی رقم نہیں لی۔ ہم نے کوشش کی کہ باہر کی دنیا پر انحصار کم کریں۔

پہلی بار بہتر پالیسی سےاخراجات اورآمدن میں توازن لایا گیا اور گزشتہ سال کسی وزارت کو ضمنی بجٹ جاری نہیں کیا۔

حفیظ شیخ نے بتایا کہ حکومت کورونا سے نمٹنے کےلیے مختلف اقدامات کررہی ہے اور اسٹیٹ بینک کمپنیوں کو آسان شرائط پر قرضے دے رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: آئی ایم ایف نے پاکستان کے رواں مالی سال کے بجٹ میں رعایتیں دے دیں

چھوٹے کاروبار کے 3 ماہ کے بل معاف کیے اور یوٹیلیٹی اسٹورز پر اربوں روپے کی سبسڈی دی۔ لاک ڈاؤن سے چھوٹے کاروبار کی ترقی کی شرح ایک اعشاریہ 5 دو فیصد رہے گی۔

مشیرخزانہ نے بتایا کہ آئندہ بجٹ میں عوام کو مزید مرعات دینے کی کوشش کریں گی اور نئے ٹیکس نہیں لگائیں گے جب کہ جو ٹیکس ہیں ان میں بھی کمی کرنے پر غور کیا جائے گا۔

مشیرخزانہ نے بتایا کہ گزشتہ سال محصولات کی وصولی کا ہدف بہت زیادہ رکھا گیا تھا۔ ہمیں امید تھی کہ ہدف کے نزدیک پہنچ جائیں گے لیکن کورونا وائرس کے باعث ایسا نہیں ہوسکا۔

انہوں نے بتایا کہ آئی ایم ایف کو پاکستانی عوام پر ظلم کرنے کیلئے نہیں بنایا گیا، وہ ایک بینک کی طرح کام کرتا ہے اور چاہتا ہے قرض لینے والا ملک واپس بھی کر سکے۔ کورونا بحران میں سب سے پہلے آئی ایم ایف نے اضافی رقم دی۔

ملک کی تاریخ میں پہلی بار کسی حکومت نے اپنے اخراجات کو آمدن سے کم رکھا اور پرائمری بیلنس کو صفر کیا۔ حکومت کی پہلی ترجیح کم آمدنی والا طبقہ ہے۔

پاکستان میں بے شمار اشیا  باہر سے آ رہی تھیں جن کو حکومت نے کنٹرول کیا اور براہ راست بیرونی سرمایہ میں 137 فیصد اضافہ ہوا۔ اس حکومت نے پانچ سو ارب کے اضافی ٹیکس جمع کیے۔


متعلقہ خبریں