جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کالعدم قرار



اسلام آباد: سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسی کی درخواست منظور کرتے ہوئے ان کے خلاف صدارتی ریفرنس کو کالعدم کر دیا۔

جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں دس رکنی فل کورٹ نے سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسی کیس کی سماعت کی۔

دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کیا اور  ایک وقفے کے بعد عدالت نے مختصر فیصلہ سناتے ہوئے جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کالعدم قرار دے دیا۔

فیصلے میں عدالت نے جسٹس قاضی فائز کو جاری شوکاز نوٹس بھی کالعدم قرار دیا۔

عدالت کی جانب سے سنائے گئے مختصر فیصلے 10 ججز میں سے 7 ججز نے جسٹس قاضی فائز کی اہلیہ کے ٹیکس معاملات ایف بی آر کو بھیجنے کا حکم دیا۔

فیصلے کے مطابق ایف بی آر کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ جسٹس قاضی عیسیٰ کی اہلیہ کو پراپرٹی سے متعلق 7 روز میں نوٹسز جاری کرے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ  نوٹس جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سرکاری رہائشگاہ پر بھجوائے جائیں،نوٹس جاری کرنے کے بعد ایف بی آر 7 دن میں سپریم جوڈیشل کونسل کو رپورٹ جمع کرائے۔

فیصلے کے مطابق چیئرمین ایف بی آر تمام تر معلومات سپریم جوڈیشل کونسل کو فراہم کرے گا۔

اس سے قبل کیس کی سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسی نے منی ٹریل سے متعلق دستاویز عدالت میں جمع کرائیں جبکہ جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ نے زرعی زمین اور پاسپورٹ کی نقول بھی عدالت میں جمع کرائی گئیں۔

درخواست گزار کے وکیل منیر اے ملک نے کہا کہ سپریم کورٹ نے پاکستان سے باہر گئی رقم واپس لانے کے لیے کمیٹی بنائی تھی اور سپریم کورٹ کی کمیٹی نے تجویز کیا تھا کہ آمدن اور اثاثوں کے فارم میں کئی ابہام ہیں۔

الزام عائد کیا گیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسی نے جان بوجھ کر جائیدادیں چھپائیں۔ عدالتی کمیٹی کہتی ہے غیر ملکی اثاثے ظاہر کرنے سے متعلق قانون میں بھی ابہام ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا آپ کا مؤقف تھا کہ ریفرنس سے پہلے جج کی اہلیہ سے دستاویز لی جائیں۔ کل کی سماعت کے بعد آپ کے مؤقف کو تقویت ملتی ہے۔

منیر اے ملک نے کہا کیا ہم ایسا قانون چاہتے ہیں کہ ایک ادارہ دوسرے ادارے کی جاسوسی کرے ؟

جسٹس یحیٰی آفریدی نے استفسار کیا کہ جج کے بنیادی حقوق زیادہ اہم ہیں یا ان کا لیا گیا حلف ؟ منیر اے ملک نے کہا کہ عدالت درخواست کو انفرادی شخص کے حقوق کی پٹیشن کے طور پر نہ لے۔

جسٹس قاضی فائز عیسی کے وکیل منیر اے ملک کے جواب الجواب پر دلائل مکمل ہوئے تو سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکیل حامد خان نے دلائل دیے۔

حامد خان نے کہا اسلام ہر مرد اور عورت کو جائیداد رکھنے کا حق دیتا ہے۔ حامد خان نے دوران دلائل سورہ النساء کا حوالہ بھی دیا۔

سپریم کورٹ بار کے وکیل حامد خان کے دلائل مکمل ہوئے تو سندھ بار کونسل کے وکیل رضا ربانی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ تاثر دیا گیا کہ آے ار یو لیگل فورس ہے، حکومت کے مطابق وزیر اعظم ادارہ بنا سکتے ہیں۔ وزیر اعظم وزارت یا ڈویژن بنا سکتے ہیں۔قواعد میں جن ایجنسیوں کا ذکر ہے وہ پہلے سے قائم شدہ ہیں۔

یہ بھی پڑھیں لندن میں خریدی گئی جائیداد میری اور میرے بچوں کے نام ہے، اہلیہ جسٹس قاضی فائز

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا جتنی بھی ایجنسیاں موجود ہیں ان کو قانون کی سپورٹ بھی حاصل ہے۔

رضا ربانی نے کہا اے آر یو کو لامحدود اختیارات دیے گئے۔ نوٹیفیکیشن کے مطابق اے آر یو کو کابینہ کے فیصلے کا تحفظ حاصل ہے۔ اے آر یو کے لیے قانون سازی نہیں کی گئی۔


متعلقہ خبریں