امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی روزویلٹ ہوٹل خریدنے میں دلچسپی


اسلام آباد: قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے نجکاری کو بتایا گیا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نیویارک میں قومی ایئر لائن (پی آئی اے) کی ملکیتی ہوٹل روزویلٹ ہوٹل خریدنے میں دلچسپی ظہار کی ہے۔

پی آئی اے کے انویسٹمنٹ لمیٹیڈ کے ایم ڈی نجیب سمیع نے نجکاری کمیٹی کو بتا دیا کہ حکومت دس مرتبہ روزویلٹ ہوٹل بیجنے کی کوشش کرچکی ہے۔

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے نجکاری میں پی آئی اے کی کارکردگی پرغور کیا گیا۔

اجلاس کے دوران کمیٹی ممبر خواجہ آصف نے اعتراف کیا کہ قومی ایئر لائن کی نجکاری نہ کرپانا ن لیگ حکومت کی ناکامی تھی۔

انہوں نے کہا کہ ابھی نجکاری کیلئے حالات بہتر نہیں ہیں۔ پی آئی اے کی نجکاری پر پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیا جائے۔

خیال رہے کہ آج وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کرائے گئے جواب میں کہا کہ نیویارک میں واقع روزویلٹ ہوٹل فروخت کررہے ہیں اور نہ نجکاری ہوگی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامرفاروق نے ریمارکس دیے کہ قومی اثاثے کو ایسے ہی پھینکنا نہیں چاہیے جیسا عمومی طور پر ہم کرتے ہیں۔

دوران سماعت ڈپٹی اٹارنی جنرل راجہ خالد محمود نے عدالت کو بتایا کہ حکومت ایڈوائزر مقرر کر رہی ہے کہ کیسے ہوٹل کو مستقبل میں منافع بخش بنایا جائے۔

مزید پڑھیں: حکومت روز ویلٹ ہوٹل کی نجکاری سے پیچھے ہٹ گئی

جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں فزیبلٹی صرف منافع بخش ہونے کے حوالے سے تیار ہورہی ہے۔ ہوٹل میں جوائنٹ وینچر تو نہیں ہورہا؟۔

ڈپٹی اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ایسا کچھ نہیں یہ صرف اخباری خبریں ہیں۔ ہوٹل منافع بخش بنانے کیلئے حکومت ایڈوائزر مقرر کر رہی ہے۔

درخواست گزار کے وکیل نے دلائل دیئے کہ معاون خصوصی ذولفی بخاری اپنے فرنٹ مین کے ذریعے ہوٹل کو لینا چاہتے ہیں۔ ذولفی بخاری پاکستانی شہری بھی نہیں اور نہ ہی وہ منتخب نمائندے ہیں۔

ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ ذولفی بخاری پاکستانی ہیں لیکن دوہری شہریت کے حامل ہیں۔ جسٹس عامرفاروق نے ریمارکس دیئے کہ تو پھر کیا آپ نے سپریم کورٹ کا فیصلہ پڑھا، یہ تو پبلک آفس ہولڈر میں بھی آجاتا ہے۔

جسٹس عامر فاروق کا کہنا تھا کہ کیا رٹ میں موجود کسی فریق کو تو ہوٹل نہیں دیا جارہا۔۔؟؟کیا یہاں ٹیلنٹ نہیں کہ غیرملکی اسپیشلسٹ کو ہائر کرکے خدمات لے رہے ہیں؟؟۔۔۔ایسے نہ کریں یہ قومی اثاثہ ہے کسی کا ذاتی نہیں، ذاتی انٹرسٹ نہیں ہونا چاہیے۔

عدالت نے معاملہ نمٹاتے ہوئے درخواست گزار کے وکیل کومخاطب کرتے ہوئے کہا کہ فیصلے میں وفاق کے بیان کا ذکر کر دیتے ہیں، مستقبل میں کچھ ایسا ہو تو آپ دوبارہ رٹ دائر کر سکتے ہیں۔


متعلقہ خبریں