پیٹرولیم بحران:کمیشن بنانےکیلئےحکومت کو مہلت مل گئی


پیٹرولیم بحران:کمیشن بنانےکیلئےحکومت کو مہلت مل گئی

پیٹرولیم بحران:کمیشن بنانےکیلئےحکومت کو مہلت مل گئی

Posted by HUM News on Thursday, July 16, 2020

لاہور ہائی کورٹ نے پیٹرولیم بحران کے متعلق کمیشن بنانے اور رپورٹ پیش کرنے کے لیے وفاقی حکومت کو چھ ہفتوں کی مہلت دے دی ہے۔

ہائیکورٹ میں پٹرولیم مصنوعات میں اضافہ اور پٹرول کی قلت کے خلاف درخواستوں پر سماعت ہوئی۔

چیئر پرسن اوگرا نے عدالت کو بتایا کہ وہ کل ریٹائرڈ ہو رہیں ہیں۔ عدالت سابق  چیرمین اوگرا کو طلب کرے جو حقائق سے اگاہ کریں گے۔

اٹارنی جنرل آف پاکستان نے استدعا کی کہ چیرمین اوگر سعید احمد کی ہونے والی انکوائری رپورٹ بھی طلب کی جائے۔ حکومتی کمیشن  بنانے اور کمیشن کی رپورٹ پیش کرنے کے لیے 8 ہفتوں کی مہلت طلب کی۔

وزرات پٹرولیم نے میٹنگ منٹس بھی عدالت میں جمع کروئے۔ عدالت نے میٹنگ منٹس کی کاپی عدالتی معاون اویس خالد اور درخواستگزار کو بھی دینے کی ہدایت کی۔

چیف جسٹس ہائی کورٹ نے بتایا کہ بادی النظر میں میٹنگ منٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عدالت کے نوٹس لینے کے بعد وزرات پٹرولیم نے نوٹس لیا۔ جب کابینہ نے فیصلے کرنا ہوتا ہے تو کوئی وزیراعظم اور وزیر کا معاملہ ہوتا ہے۔ منتخب افراد کی بجائےغیر منتخب افراد کے فیصلے سے عوام تو ناخوش ہوں گے۔

معزز جج کا کہنا تھا کہ آئل کمپنیاں قیمتیں بڑھنے پر بھی  فائدہ  لیتی ہیں۔ کابینہ میٹنگ منٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کو عوام سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اسپشل اسسٹنٹ کابینہ کو کیا گائیڈ کر رہا ہے کہ پٹرول بحران کی وجہ عوام میں پینک کا ہونا ہے۔ بظاہر  لگتا ہے کہ کابینہ کو درست آگاہ نہیں کیا گیا۔

عدالت کا کہنا تھا کہ بادی النظر میں پیٹرولیم وزرات کو اسپشل اسسٹنٹ ہی چلا رہا ہے باقی حصہ دار ہیں۔ بادی النظر میں اس بحران کا ذمہ داراسپشل اسسٹنٹ ہے جو وزرات کو چلا رہا ہے۔

عدالت نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کابینہ کے فیصلے کی روشنی  میں  کون کون سے ایکشن لیے گئے۔کتنی آئل کمپنیوں کے خلاف ایکشن لیا گیا۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ بظاہرقیمتوں میں اضافہ یا کمی کی سمری اوگرا تیار کرتا ہے لیکن 26 جون کو  قیمتوں میں اضافہ اوگرا کے سفارش کے برعکس کردیا گیا۔ بادی النظر میں سیکرٹری پٹرولیم نے فون پر مشاورت کرکے قیمتوں میں اضافہ کر دیا۔

اٹارنی جنرل آف پاکستان نے عدالت کو بتایا کہ وزرات کی زبانی سفارش پر قیمتوں میں اضافہ کر دیا گیا۔

معزز جج کا کہنا تھا کہ کیا ایسا کیا جانا اس ملک کے عوام سے مذاق کے مترادف تو نہیں۔ کابینہ میٹنگ منیٹس  دیکھ کر مجھے جھٹکا لگا۔ اس میٹنگ منٹس سے ظاہر ہوتا ہے پنجابی میں اسے کہتے ہیں آبیل مجھے مار۔

عدالت نے کمیشن کے قیام کے بارے  میں اٹارنی جنرل کو مکمل اختیار دیا کہ وہ حکومت کو ہر قسم کا مشورہ دے سکتے ہیں۔

چیف جسٹس کمیشن کی رپورٹ  دیکھ کر عدالت کوئی فیصلہ کرے گی۔ عدالت نے اٹارنی جنرل آف پاکستان کو عدالتی معاون اویس خالد اور اظہر صدیق سے مل کر ٹی او ار بنانے کی ہدایت کر رکھی ہے۔

گزشتہ سماعت پر عدالت نے اٹارنی جنرل آف پاکستان کے جواب کو گورکھ دھندہ قرار دے دیا تھا۔ معززجج نے ریمارکس دیئے کہ سیچ نہ بولنے پر مجھے اپنے آرڈر میں لکھنا پڑے گا کہ یہ حکومت نا اہل ہو گئی ہے۔


متعلقہ خبریں