نیب نے شہباز شریف، حمزہ اور سلمان شہباز کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کی منظوری دے دی


اسلام آباد: چیئرمین قومی احتساب بیور (نیب) جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس میں قومی اسمبلی میں اپوزیشن رہنما شہبازشریف اور ان کے دو بیٹوں حمزہ شہباز اور سلمان شہباز کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کی منظوری دے دی۔

نیب کے مطابق شہباز شریف اور ان کے بیٹوں نے 7 ہزار 328 ملین کے اثاثے بنائے ہیں۔ شہباز شریف، حمزہ شہباز اور سلمان شہباز کو ایک ہی ریفرنس میں ملزم نامزد کیا گیا ہے۔

نیب اعلامیہ کے مطابق چیئرمین نیب نے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور سابق مشیر خزانہ مفتاح اسماعیل کے خلاف بھی ضمنی ریفرنس دائر کرنے کی منظوری دے دی۔

نیب اعلامیہ کے مطابق وزارت خارجہ کے افسران و اہلکاروں کے خلاف بھی ریفرنس دائر کرنے کی منظوری دے دی گئی ہے۔

خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے چیئرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے کہا تھا کہ کرپشن کے مقدمات میں 30 دن میں فیصلہ ممکن نہیں۔

سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے اپنے جواب میں چیئرمین نیب نے کہا تھا کہ 50 ،50 گواہ بنانا قانونی مجبوری ہے۔ موجودہ احتساب عدالتیں مقدمات کا بوجھ اٹھانے کےلیے ناکافی ہیں۔

چیئرمین نیب نے کہا تھا کہ حکومت کو کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ نیب عدالتوں کی تعداد بڑھائی جائے کیونکہ مقدمات کے بوجھ کی وجہ سے ٹرائل میں تاخیر ہو رہی ہے۔

چیئرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کے مطابق لاہور ،کراچی، راولپنڈی، اسلام آباد اور بلوچستان میں اضافی عدالتوں کی ضرورت ہے۔ ہر احتساب عدالت اوسط 50 مقدمات سن رہی ہے۔

چیئرمین نیب جاوید اقبال کا کہنا تھا کہ 120 ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز نہیں تو ریٹائرڈ جج بھی تعینات ہو سکتے ہیں۔ احتساب عدالتوں میں اپیلیں سننے کےلیے بھی ریٹائرڈ ججز کی خدمات لی جا سکتی ہیں۔

مزید پڑھیں: نیب کا وزیر اعلیٰ سندھ کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ

جواب میں کہا گیا تھا کہ رضاکارانہ رقم واپسی کا اختیار استعمال کرنے سے سپریم کورٹ روک چکی ہے۔ رضاکارانہ رقم واپسی کی اجازت ملے تو کئی کیسز عدالتوں تک نہیں پہنچیں گے۔

چیئرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کے مطابق نیب عدالتیں ضابطہ فوجداری پر سختی سے عمل کرتی ہیں۔ احتساب عدالتیں ضابطہ فوجداری پر عمل نہ کرنے کا اختیار استعمال نہیں کرتیں۔

جواب کے مطابق ملزمان کی متفرق درخواستیں اور اعلیٰ عدلیہ کے حکم امتناع بھی تاخیر کی وجہ ہے۔ ہائی کورٹس ضمانت کے لیے سپریم کورٹ کے وضع کردہ اصولوں پر عمل نہیں کرتی ہیں۔

سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے جواب کے مطابق ملزمان کو اشتہاری قرار دینے کا طریقہ کار بھی وقت طلب ہے۔ بیرون ممالک سے قانونی معاونت ملنے میں تاخیر بھی بروقت فیصلے نہ ہونے کی وجہ ہے۔

نیب چیئرمین نے جواب میں کہا تھا کہ عدالتوں کی جانب سےسیاسی شخصیات کے لفظ کی غلط تشریح کی جاتی ہے۔ غلط تشریح کے باعت سیاسی شخصیات کا مطلب غیر ملکی اداروں کو سمجھانا مشکل ہوجاتا ہے۔


متعلقہ خبریں