دوران حراست تشدد کیخلاف بل منظور


اسلام آباد: سینیٹ کی کمیٹی برائے انسانی حقوق نے دوران حراست تشدد اور موت کی روک تھام اور سزا سے متعلق بل منظور کرلیا ہے۔

کمیٹی کا اجلاس سینیٹر مصطفی نوازکھوکھر کی زیرصدارت ہوا جس میں سینیٹر شیری رحمان نے بل پیش کیا۔

بل کی منظوری شیری رحمان نے سینیٹ فنکشنل کمیٹی انسانی حقوق کے اجلاس میں دی۔ بل کے مطابق دوران حراست تشدد کرنے پر 3سال تک قید اور 20لاکھ روپے جرمانہ ہو گا۔

تشدد روکنے کا ذمہ دار شخص ناکام ہوا تو اسے 5 سال تک قید اور 10 لاکھ روپے جرمانہ ہو گا۔ دوران حراست موت یا جنسی زیادتی پر قانون کے مطابق سزا اور 30 لاکھ روپے جرمانہ ہو گا۔

جو پبلک سرونٹ دوران حراست موت یا جنسی تشدد روکنے میں ناکام رہا اسے دس سال تک سزا ، بیس لاکھ روپے جرمانہ ہو گا۔

بل کے مطابق خاتون کو کوئی مرد حراست میں نہیں رکھے گا، تشدد کے ذریعے لیا گیا بیان ناقابل قبول ہو گا۔ دوران حراست تشدد یا موت کا جرم ناقابل راضی نامہ اور ناقابل ضمانت ہوگا۔

عدالت تشدد کی شکایت کرنے والے شخص کا بیان ریکارڈ، جسمانی اور نفسیاتی معائنہ کرائے گی۔ تشدد ثابت ہونے کی صورت میں عدالت معاملہ سیشن کورٹ کو بھیج دے گی۔ عدالت معاملے پر تحقیقاتی ایجنسی کے رپورٹ ملنے پر 60دن کے اندر فیصلہ کرے گی۔

تشدد کی غلط رپورٹ دائر کرنے پر ایک سال سزا اور 5 لاکھ روپے جرمانہ ہو گا۔ عدالت متعلقہ سرکاری ملازم کی معطلی یا تبادلے کی احکامات بھی دی سکتی ہے۔ سیشن کورٹ کے فیصلے کے خلاف تیس دن میں ہائی کورٹ میں اپیل دائر ہو سکی گی۔ متاثرہ شخص سیشن کورٹ میں تحفظ فراہم کرے گا۔

پاکستان پیپلزپارٹی کی رہنما شیری رحمان نے امید ظاہر کی کہ مذکورہ بل سینیٹ سے پاس ہوجائے گا لیکن انسانی حقوق کے سارے بل قومی اسمبلی میں رکے ہوئے ہیں۔

انہوں نے کم عمری میں شادی، گھریلوتشدد اور دیگر بہت سارے بل قومی اسمبلی میں رکے ہوئے ہیں۔  حکومت کے اس قسم کے بل ہر حال میں منظور کرتے ہیں اور حکومت کو بھی چاہیے کہ ان پر توجہ دے۔


متعلقہ خبریں