برصغیر کے عظیم گلوکار محمد رفیع کی 40 ویں برسی آج منائی جا رہی


نئی دہلی: برصغیر کے عظیم گلوکار محمد رفیع کی آج چالیس ویں برسی منائی جا رہی ہے۔

اس عظیم گلوکار نے گیارہ زبانوں میں تیس ہزار کے قریب گیت گائے اور پدم شری کے علاوہ پانچ قومی اور چھ فلم فیئر ایوارڈز بھی اپنے نام کیے۔

موسیقی کی دنیا کا یہ درخشان ستارہ 24 دسمبر 1924ء کو امرتسر کے گاؤں کوٹلہ سلطان سنگھ میں پیدا ہوا۔ محمد رفیع بچپن سے ہی آوازوں کی نقالی میں کمال مہارت رکھتے تھے، وہ نقالی اس بہترین انداز میں کرتے تھے کہ سننے والا دنگ رہ جاتا تھا اور اصل اور نقل میں فرق کرنا اس کے لیے مشکل ہو جاتا تھا۔

آواز کی کمال مہارت سے نقالی پر دوست احباب انہیں بہت حوصلہ دیتے تھے اور اسی حوصلے کے سبب انہوں نے گائیکی میں قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا۔

محمد رفیع کا خاندان 1935 میں بھارت سے ہجرت کر کے پاکستان آ گیا جہاں ان کے والد حجامت کے پیشے سے منسلک ہو گئے۔

لاہور کے علاقے بھاٹی میں ایک تھڑے پر بیٹھ کر گنگناتے محمد رفیع کو جب ان کے بہنوئی نے سنا تو انہیں استاد بڑے غلام علی خان کی شاگردی میں دے دیا۔ استاد بڑے علی خان نے ہی محمد رفیع کو گلوکاری کے بنیادی اسرار و رموز سکھائے۔

محمد رفیع نے دنیائے موسیقی میں قدم رکھا تو اس میں بہار سی آ گئی۔ فلم جگنو کے گیتوں نے انہیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچایا اور اس کے بعد کامیابیوں نے جیسے ان کا ہاتھ تھام لیا۔

اس فلم کے گیت ’یہاں بدلہ وفا کا بے وفائی کے سوا کیا ہے‘ نے محمد رفیع کو وہ شہرت بخشی جس کے وہ حقدار تھے۔ اس کے بعد محمد رفیع نے پیچھے مڑ کر کبھی نہیں دیکھا۔

رفیع کے مشہور گانوں میں ’پتھر کے صنم تجھے ہم نے محبت کا خدا جانا‘، ’بہارو پھول برساؤ میرا محبوب آیا ہے‘، ’او دنیا کے رکھوالے سن درد بھرے میرے نالے‘، ’یہ چاند سا روشن چہرا زلفوں کا رنگ سنہرا‘، ’تم مجھے یوں بھلا نہ پاؤ گے‘ جیسے بےشمار نغمے ایک الگ مقام رکھتے ہیں۔

موسیقی کا یہ چمکتا دمکتا ستارہ 31 جولائی 1980 کو غروب ہو گیا مگر تقریباً چار دہائیاں گزرنے کے بعد بھی اس کی روشنی ماند نہ پڑ سکی۔


متعلقہ خبریں