دریائے سندھ میں پلنے والی تین نسلیں

دریائے سندھ میں پلنے والی تین نسلیں

فوٹو: نمائندہ ہم نیوز


لاڑکانہ( شہزادعلی خان) لاڑکانہ سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر بہتے دریائے سندھ میں گزشتہ کئی دہائیوں سے چند ماہی گیر خاندان آباد ہیں ان خاندانوں کی تین سے زائد نسلیں دریا میں بہتے پانی کے کنارے اپنے بچوں کا پیٹ پالتے گزر چکی ہیں۔

زندگی کی تمام جدید سہولیات اور تعلیم تک سے محروم ان خاندانوں کا ذریعہ معاش مچھلیاں پکڑنا، دریائے سندھ کی سیر کو آنے والے شہریوں کیلیے کشتی بینی اور متعلقہ کچے کے جنگل میں قدرتی طور پر پیدا ہونے والی سوہاند کی لکڑی سے چھپرے بنانا ہے جو دیہی علاقوں میں تعمیراتی کام میں استعمال کیے جاتے ہیں۔

متعلقہ خاندانوں کے سربراہ  ذوالفقار ملاح نے ہم نیوز کو بتایا کہ انکے آبا ؤاجداد کب دریا کنارے آئے انہیں یاد تک نہیں وہ خود بھی یہیں پیدا ہوئے اور اپنی تین نسلوں کو سندھو کنارے آباد دیکھ چکے ہیں۔

دریائے سندھ صوبہ سندھ کے آبادی والے علاقوں کے درمیان سے گزر رہا ہے اور ان کے بزرگ لاڑکانہ خیرپورمیرس پل بننے سے قبل کئی دہائیوں تک کشتیوں کے ذریعے لوگ ایک کنارے سے دوسرے کنارے پہنچانے کا کام کرکے روزگار کماتے تھے۔

چند سال قبل پل بننے کے بعد انکا کئی دہائیوں سے جاری ذریعہ معاش رک گیا اب صرف کبھی کبھار ابرآلود خوشگوار موسم میں دریا کی سیر کو آنے والے شہری ہی کشتیوں میں بیٹھتے ہیں یا پھر یہ کشتاں دریا پار کچے کے علاقوں میں جنگلات کی لکڑی لانے کیلیے استعمال ہوتی ہیں۔

رات ہوتے ہی دریائے سندھ گہرے اندھیرے میں ڈوب جاتا ہے۔ ان آباد خاندانوں کیلیے آج بھی روشن رات صرف وہی ہوتی ہے جب چاند اپنے مکمل آب و تاب پر ہو۔

دریا کنارے آباد یہ تمام خاندان آج بھی صدیوں پرانی زندگی جی رہے ہیں۔ کھانا پکانے کیلئے لکڑی جنگل سے کاٹ کر لائی جاتی ہے اور پینے کے پانی کی ضرورت قریب آباد دیہاتوں سے پوری ہوتیں ہیں۔ ان خاندانوں کی قل جمع پونجی صرف دو وقت کی روٹی ہے۔

دریا میں سیلاب آ جائے تو یہ چھپرے سے بنے اپنے کچے گھروں سمیت دریا کنارے آباد ہوجاتے ہیں اور سیلاب گزر جانے کے بعد واپس دریا میں جاکر آباد ہوجاتے ہیں۔

ذوالفقار ملاح نے بتایا کہ انکے پاس پکے کے علاقے میں جانے کیلیے کوئی جگہ نہیں ہے اور لوگ اپنی ذرعی زمینوں پر بھی انہیں آباد ہونے نہیں دیتے۔ ان کی زندگی دریا سے شروع ہو کر دریا پر ہی ختم ہو جاتی ہے۔

زندگی بھر کی جمع پونجھی اکٹھی کر کے یہ چند گھرانے اپنے چند مویشی خریدنے میں ضرور کامیاب ہوئے ہیں۔جن کے دودھ کو اپنے بچوں کیلیے استعمال کرتے ہیں اور بچ جانے والے دودھ کو قریبی دیہاتیوں میں فروخت کر دیتے ہیں۔

دریائے سندھ میں آباد یہ چند خاندانوں کا ایک بڑا مسئلہ کچے کے ڈاکو بھی ہیں جو کہ ان سے کبھی انکے مویشی چھین جاتے ہیں تو کبھی انہیں دودھ اور دیگر کھانے پینے کی اشیاء فراہم کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔

ذوالفقار ملاح کا کہنا تھا کہ انہیں مجبور ہو کر ڈاکووں کا کہنا ماننا پڑتا ہے ورنہ دہشت کی علامت یہ ڈاکو انہیں دریائے سندھ میں بھی رہنے نہیں دیں گے اور دوسری کسی جگہ منتقل ہونے کیلیے نا تو وسائل ہیں اور نہ دوسرا ذریعہ معاش۔

انتہائی کٹھن زندگی گزارنے والے ان خاندانوں کی خوشیاں اور غم دریا سندھ سے وابستہ ہیں۔ بوڑھے بزرگ مر جائیں تو قریبی قبرستانوں میں دفن کر دیا جاتا ہے اور جب خاندان میں کسی بچے کی ولادت ہو تو یہیں خوشیاں منائی جاتی ہیں۔

ذوالفقار ملاح کا کہنا تھا کہ انہوں نے تو اپنی زندگی جیسے تیسے گزار دی لیکن اب ترقی یافتہ دورجدید کے تقاضے پہلے سے مختلف ہیں اب انکے بچوں کو تعلیم و تربیت اور زندگی میں آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔

عوام کے منتخب نمائندے انکی جانب رخ صرف تب ہی کرتے ہیں جب انہیں انکے ووٹ کی ضرورت ہو اس کے بعد وہ نظر نہیں آتے۔

سندھ حکومت نے بھی کبھی ان خاندانوں کا نہیں سوچا۔ سندھ میں 7 سو سے زائد کلو میٹرز تک بہنے والے دریائے سندھ کے کنارے گڈو سے ٹھٹھہ تک ہزاروں خاندان خواتین اور معصوم بچوں سمیت انہیں گہری تاریکیوں میں ڈوبے ہوئے ہیں جنہیں آج بھی اپنی زندگی کی صبح کے اجالے کا انتظار ہے۔


متعلقہ خبریں