اردو کے ممتاز شاعر ڈاکٹر راحت اندوری کا انتقال ہو گیا

اردو کے ممتاز شاعر راحت اندوری کا انتقال ہو گیا

اسلام آباد: اردو کے عالمی شہرت یافتہ شاعر ڈاکٹر راحت اندوری کا انتقال ہو گیا ہے۔ ان کی عمر 70 سال تھی۔ وہ عالمی وبا قرار دیے جانے والے کورونا وائرس کے باعث اسپتال میں زیرعلاج تھے۔

معروف شاعر اور ماہر تعلیم پروفیسر عنایت علی خان انتقال کر گئے

اردو شاعری میں منفرد مقام کے حامل ممتاز شاعر نے اپنے کورونا وائرس میں مبتلا ہونے کی اطلاع از خود سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ٹوئٹر‘ پہ دی تھی۔ وہ دل کے عارضے، گردوں کی تکلیف اور ذیابیطس (شوگر) کے بھی مریض تھے۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اپنے اسپتال میں داخل ہونے کی اطلاع دیتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ وہ اپنی خیریت سے آگاہ کرتے رہیں گے۔ انہوں نے اپنے لیے دعائے صحت کرنے کی بھی اپیل کی تھی۔

بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق اندور کے ضلع مجسٹریٹ منیش سنگھ نے بھی معروف شاعر راحت اندوری کے انتقال کی تصدیق کردی ہے۔

مخصوص اور منفرد لب و لہجے میں کلام پیش کرنے والے راحت اندوری حالات حاضرہ پر بہترین اشعار پڑھا کرتے تھے جس کی وجہ سے وہ کئی مرتبہ معتوب بھی قرار دیے گئے۔ انہوں نے فلموں کے لیے نغمے لکھے اور بحیثیت مصور بھی خود کو روشناس کرایا لیکن بطور شاعر وہ اس قدر مقبول ہوئے کہ ان کی دوسری شناخت اپنی حیثیت نہیں منوا سکی۔ مرحوم درس و تدریس سے وابستہ تھے۔

نامور شاعر اور نغمہ نگارحمایت علی شاعرکی پہلی برسی

درج ذیل اشعار ان کی شناخت قرار دیے جاتے ہیں۔

اگر خلاف ہیں، ہونے دو، جان تھوڑی ہے
یہ سب دھواں ہے، کوئی آسمان تھوڑی ہے
لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں
یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے
میں جانتا ہوں کہ دشمن بھی کم نہیں لیکن
ہماری طرح ہتھیلی پہ جان تھوڑی ہے
ہمارے منہ سے جو نکلے وہی صداقت ہے
ہمارے منہ میں تمہاری زبان تھوڑی ہے
جو آج صاحبِ مسند ہیں، کل نہیں ہوں گے
کرائے دار ہیں، ذاتی مکان تھوڑی ہے
سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں
کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے​

معروف شاعرہ کشور ناہید کا کورونا ٹیسٹ مثبت آگیا

بے پناہ مقبولیت رکھنے والے راحت اندوری کی شاعری، ان کے لب ولہجے اور انداز کا کمال تھا کہ دہلی، لکھنؤ، اندور، بنارس، کراچی، لاہور، دبئی اور نیویارک سمیت ہراس جگہ عوامی پذیرائی انہیں ملتی تھی جہاں اردو بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ ان کی آمد پر ہال تالیوں سے داد و تحسین سے گونجتا رہتا تھا۔ بلاشبہ! وہ مشاعرہ لوٹ لینے کی صلاحیت رکھتے تھے۔

ابھی تو کوئی ترقی نہیں کر سکے ہم لوگ

وہی کرایہ کا ٹوٹا ہوا مکاں ہے میاں

اب کے جو فیصلہ ہوگا وہ یہیں پہ ہوگا

ہم سے اب دوسری ہجرت نہیں ہونے والی

ٹوٹ رہی ہے ہر دن مجھ میں اک مسجد

اس بستی میں روز دسمبر آتا ہے

شاعر اور افسانہ نگار احمد ندیم قاسمی کی14ویں برسی

میری خواہش ہے کہ آنگن میں نہ دیوار اٹھے

میرے بھائی میرے حصہ کی زمیں تو رکھ لے

لوگ ہر موڑ پہ رک رک سنبھلتے کیوں ہیں

اتنا ڈرتے یہں تو پھر گھر سے نکلتے کیوں ہیں

موڑ ہوتا ہے جوانی کا سنبھلنے کے لئے

اور سب لوگ یہیں آ کے پھسلتے کیوں ہیں


متعلقہ خبریں