گیس انفراسٹرکچرڈویلپمنٹ کیس:گیس کمپنیز کو جی آئی ڈی سی ٹیکس ادا کرنے کا حکم



اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے گیس انفراسٹرکچرڈویلپمنٹ کیس میں گیس کمپنیز کی اپیلیں مسترد کرتے ہوئے انہیں جی آئی ڈی سی ٹیکس ادا کرنے کا حکم دے دیا ہے۔

سپریم کورٹ کے 3 رکنی بنیچ نے جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں20 فروری کو فیصلہ محفوظ کیا تھا جو آج سنایا گیا ہے۔ مذکورہ کیس میں 70 سے زائد کمپنیز فریق تھیں اور سب کی درخواستیں مسترد کر دی گئی ہیں۔

جسٹس فیصل عرب نے 47 صفحات پر مشتمل فیصلہ تحریر کیا. جسٹس منصور علی شاہ نے 31 صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ لکھا۔

فیصلے کے متن میں درج ہے کہ جی آئی ڈی سی ایکٹ 2015 کا مقصد گیس کی درآمد کےلیے سہولت دینا تھا۔ جی آئی ڈی سی کے تحت نافذ کی گئی لیوی آئین کے مطابق ہے۔عدالت نے حکومت کو سیس بقایاجات کی وصولی تک مزید سیس عائد کرنے سے بھی روک دیا ہے۔

سپریم کورٹ نے فیصلے میں لکھا کہ2020-21 کےلیے گیس قیمت کا تعین کرتے وقت اوگرا سیس کو مدنظر نہیں رکھ سکتا۔ تمام کمپنیوں سے 31 اگست تک کی واجب الادا رقم 24 اقساط میں وصول کی جائے۔

عدالت نے حکومت کو شمال جنوبی پائپ لائن منصوبہ پر کام6 ماہ میں شروع کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے میں درج ہے کہ تاپی منصوبہ بھی پاکستانی سرحد تک پہنچتے ہی اس پر فوری کام شروع کیا جائے۔

اختلافی نوٹ

جی آئی ڈی سی کیس میں جسٹس منصور علی شاہ کا 31 صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ لکھا ہے۔ انہوں نے لکھا کہ توانائی، صنعت، ٹرانسپورٹ، ٹیکنالوجی اورزراعت کے لیےضروری ہے۔ ہر وہ قوم جس کی معیشت ابھر رہی ہو وہاں توانائی کی فراہمی بہت ضروری ہے۔

اختلافی نوٹ کے متن میں درج ہے کہ ملک میں ابھی بھی قدرتی گیس کی قلت ہے۔ قدرتی گیس کی قلت اور طلب کے خلا کو پر کرنے کی ضرورت ہے۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے لکھا کہ پاکستان اکنامک سروے رپورٹ کے مطابق مقامی گیس توانائی سپلائی کا 38 فیصد ہے۔ پاکستان 4 ارب کیوبک فٹ یومیہ گیس پیدا کر رہا ہے۔ 295ارب روپے10سال میں جی آئی ڈی سی کی مد میں اکٹھے ہوئے۔

وفاقی حکومت سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں 6 ماہ میں قانون سازی کرے۔ قانون سازی نہ ہونے کی صورت میں جی آئی ڈی سی کی مد میں اکٹھے ہوئے فنڈواپس کرے۔

حکومت نے آرڈیننس کے ذریعے جی آئی ڈی سی کے 220 ارب روپے معاف کیے تھے لیکن اپوزیشن کی تنقید پر حکومت نے یہ آرڈیننس بھی واپس لے لیے تھا۔

جی آئی ڈی سی قانون کا آغاز 2011 میں ہوا تھا اس وقت کی حکومت نے گیس کمپنیوں اور بڑے صنعت کاروں سے اضافی ٹیکس وصول کرنے کا آغاز کیا تاہم جون 2013 میں پشاور ہائی کورٹ نے حکومت کو پارلیمنٹ سے منظوری تک اس ٹیکس کی وصولی سے روک دیا تھا۔

بعدازاں سپریم کورٹ نے بھی جی آئی ڈی سی قانون کو غیر آئینی قرار دینے کا حکم برقرار رکھا۔ 2015 میں حکومت وقت نے جی آئی ڈی سی ایکٹ میں ترامیم کرکے دوبارہ قانون بنا لیا جس کو صنعت کاروں نے پشاور اور سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کیا۔ 2016 میں سندھ ہائیکورٹ نے جی آئی ڈی سی ایکٹ کو غیر آئینی جبکہ پشاور ہائی کورٹ نے درست قرار دیا تھا۔ متاثرہ فریقین نے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا تھا۔

موجودہ وفاقی حکومت نے ایک آرڈیننس جاری کیا جس کے تحت مختلف صنعت کاروں کی جانب سے گیس انفراسٹرکچر کی مد میں لوگوں سے اضافی طور پر وصول کردہ 208 ارب روپے، جوواپس لیے جانے تھے، کو معاف کر دیا تھا۔

مذکورہ آرڈیننس اپوزیشن کی جانب سے شدید تنقید کے بعد حکومت نے فوری طور پر واپس لے لیا تھا۔ جس سے مختلف صنعتکاروں کیلئے208 ارب روپے معاف کرنے کا فیصلہ بھی منسوخ ہو گیا تھا۔

اٹارنی جنرل نے وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر سپریم کورٹ میں جلد سماعت کی استدعا کی تھی جس پر آج عدالت نے فیصلہ سنا دیا ہے۔


متعلقہ خبریں