پاکستان میں پولیو وائرس:جنگ ابھی جاری ہے


اسلام آباد: بلوچستان کے ضلع دکی میں پولیو کا ایک کیس سامنے آنے سے تصدیق ہوگئی ہے کہ ویکسی نیشن کے باوجود ملک میں وائرس تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔

ماہرین کوئٹہ،قلعہ عبداللہ،پشین،پشاور،بنوں،سندھ اور فاٹا میں بھی پولیو وائرس کی موجودگی کے خطرات ظاہر کررہے ہیں۔

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی اس ضمن میں سنجیدگی کا عالم یہ ہے کہ 2015 کے بعد سے اس نے اس سلسلے میں کوئی رپورٹ ہی جاری نہیں کی ہے۔

پاکستان کا شمار دنیا کے ان تین ممالک میں شامل ہے جہاں پولیو وائرس موجود ہے۔

افغانستان اور نائیجیریا وہ دو ممالک ہیں جہاں سے پولیو وائرس کا خاتمہ نہیں ہو سکا ہے۔

پولیو کا مرض کیا ہے:

پولیو ایک ایسے وائرس کا نام ہے جو انسانی جسم کے اعصابی نظام پر حملہ آور ہو کر مختلف پٹھوں کو کمزور کرتا ہے۔

اس مرض کی ابتدائی علامات میں بخارکا چڑھنا،تھکاوٹ کا محسوس ہونا،سردرد،متلی،اعضا میں درد اور گردن میں اکڑاؤ کا احساس شامل ہیں۔

پولیو وائرس کا شکار کسی بھی عمر کے افراد ہوسکتےہیں لیکن پانچ سال سے کم عمر بچے اس کے زیادہ نشانہ بنتے ہیں۔

میڈیکل سائنس کی اتنی ترقی کے باوجود پولیو کے مرض کا علاج دریافت نہیں ہوسکا ہے البتہ ویکسی نیشن کے ذریعے بچاؤ ممکن ہے۔

انسداد پولیو کے لئے اٹھائے گئے حکومتی اقدامات:

پاکستان میں سنہ 1976 میں ذوالفقارعلی بھٹو کےدورحکومت میں انسداد پولیومہم کاآغازکیا گیا۔

ان کے بعد بے نظیربھٹونےانسداد پولیومہم پرخاص توجہ دی اور1994 میں پولیو کے خلاف جنگ کا باقاعدہ آغاز ہوا۔

2000 میں جنرل پرویزمشرف دورمیں پولیو کے 199 کیسز سامنے آنے سے پاکستان ان ممالک کی فہرست میں اول نمبر پر آگیا جو پولیو سے متاثر تھے۔

2007 میں ملا فضل اللہ نے سوات میں پولیو کے قطروں کو غیراسلامی قرار دیا۔

2010 میں پاکستان میں پولیو کے 150 کیسز سامنے آئے۔

اسامہ بن لادن کی تلاش کے لیےامریکی ایجنٹ کی جانب سے چلائی گئی ’جعلی پولیو مہم‘ نے پاکستان میں انسداد پولیو کی کوششوں کو بہت بری طرح متاثر کیا۔

2010 میں تحریک طالبان نے پولیو ورکرزکو جاسوس قرار دے کرمہم بند کرنے کی دھمکی دی۔

پاکستان میں پہلی مرتبہ جولائی 2012 میں کراچی میں اسحاق نامی پولیو ورکر کوموت کے گھاٹ اتار دیا گیا اور انسداد پولیو مہم مزیدمشکلات سے دوچار ہو گئی۔

ہم انویسٹی گیشن کے مطابق 2012 سے لے کرآج تک انسداد پولیو مہم کے 104 کارکنان کو شہید کیا جاچکا ہے۔

پولیو ورکرز کی سب سے زیادہ 31 شہادتیں 2014 میں ہوئیں۔

2014 میں 300 پولیو کیسزکےساتھ پاکستان ایک بارپھرپولیوسےمتاثرہ مملک کی فہرست میں سب سے اوپر آگیا۔

2016 میں کوئٹہ میں ہونے والے بم دھماکے میں 17 افراد کی ہلاکت پولیو مہم  کا سب سے زیادہ بڑا جانی نقصان ہے۔

پاک فوج کے مؤثراقدامات کی وجہ سے 2015 سے اب تک شہادتوں اور پولیوکیسز دونوں میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔

2020 تک پاکستان کے پولیو فری ہونے کا امکان ہے لیکن پچھلے تین ماہ میں مزید چاراپولیو ورکرز کی شہادت اس بات کا ثبوت ہےکہ یہ جنگ ابھی جاری ہے۔


متعلقہ خبریں