شہزاد اکبر کی تعیناتی کے خلاف درخواست پر فیصلہ محفوظ

منی لانڈرنگ کے مجرم بدلے پر اتر آئے، کوئی کیس نہیں، نام ای سی ایل میں ڈال دیا، شہزاد اکبر

اسلام آباد: ہائی کورٹ نے وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کی تعیناتی کے خلاف درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کیس کی سماعت کی۔ چیف جسٹس نے شہری پرویزظہور کی درخواست پر سماعت کی۔ شہری پرویز ظہور کی جانب سے وکیل امان اللہ کنرانی عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔

درخواست گزار کے وکیل نے مؤقف اپنایا کہ احتساب ایک آزاد ادارہ ہے وہ کسی کے ماتحت نہیں ہے۔ رولز آف بزنس نے احتساب کے ادارے کو آزاد رکھا ہوا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ یہ عدالت ڈکلئیر کر چکی ہے کہ شہزاد اکبر وفاقی حکومت نہیں ہیں، محض ایک نام رکھ دینے سے کسی کی مداخلت ثابت تو نہیں ہو جاتی۔

وکیل امان اللہ کنرانی نے کہا کہ غیرمنتخب نمائندوں کو رکھنا آئین اور قومی اسمبلی کے رولز کے بھی خلاف ہے۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آئینی طور پر وزیراعظم کسی کو بھی مشیر رکھ سکتا ہے۔ معزز جج کا کہنا تھا کہ شہزاد اکبر وفاقی کابینہ کا حصہ نہیں ہو سکتے ہم نے اپنے شوگر ملز کے فیصلے میں لکھ دیا ہے۔

درخواست میں کہا گیا کہ مرزا شہزاد اکبر وزیراعظم کے مشیر اور وفاقی وزیر کے برابر عہدہ رکھتے ہیں تعیناتی مسابقتی عمل اور اسامی مشتہر کیے بغیر غیر شفاف انداز میں کی گئی، استدعاہے کہ مرزا شہزاد اکبر کو وفاقی وزیر کا عہدہ استعمال کرنے سے روکا جائے۔

درخواست میں مرزا شہزاد اکبر کی بطور چیئرمین ایسٹ ریکوری یونٹ تعیناتی کو بھی چیلنج کرتے ہوئے استدعا کی گئی ہے کہ مرزا شہزاد اکبر کی تعیناتی کا 22 جولائی کا نوٹی فکیشن غیر قانونی قرار دیا جائے۔

عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ مرزا شہزاد اکبر کی تعیناتی غیر قانونی قرار دے کر وصول کی گئی تنخواہیں، الاؤنسز اور مراعات واپس لی جائیں۔ شہزاد اکبر کا تقرر اقربا پروری، مفادات کا ٹکراؤ اور وزیراعظم کے حلف کی خلاف ورزی ہے۔ شہزاد اکبر اپنے سیاسی آقا کی خوشنودی کے لیے کردار ادا کر رہے ہیں۔


متعلقہ خبریں