چھوٹو گینگ کے سرغنہ سمیت دیگر ملزمان بری

چھوٹو گینگ کے سرغنہ سمیت دیگر ملزمان بری

فائل فوٹو


ملتان: انسداد دہشت گردی کی عدالت نے چھوٹو گینگ کے سرغنہ سمیت دیگر ملزمان کو قتل اور اقدام قتل کے مقدمات میں بری کر دیا ہے۔

ملتان کی انسداد دہشتگردی عدالت نے مقدمے کی سماعت کی اور شک کا فائدہ دیتے ہوئے کیسز میں ملزمان کو بری کردیا۔ ملزمان کے خلاف قتل ، اقدام قتل اور اغوا سمیت دیگر مقدمات درج تھے۔ ملزمان میں غلام رسول عرف چھوٹو، خالد عرف خالدی، اسحاق عرف ساقی شامل ہیں۔

اس قبل بھی انسداد دہشتگردی عدالت نمبر 2 نے چھوٹو گینگ کے سرغنہ سمیت دیگر ملزمان کو پولیس پارٹی پر حملہ کرکے کانسٹیبل کو شہید کرنے اور غیر قانونی اسلحہ رکھنے کے الزام میں شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں:پولیس پارٹی حملہ کیس: چھوٹو گینگ کے سرغنہ سمیت دیگر ملزمان بری

غلام رسول چھوٹو سمیت دیگر ملزمان جیل میں دہشتگردی اور قتل کے مقدمات میں 18, 18 مرتبہ سزائے موت اور عمر قید کاٹ رہے ہیں۔ چھوٹو گینگ کے خلاف عدالتوں میں دہشتگردی، قتل اور اغوا سمیت متعدد مقدمات ابھی بھی زیر سماعت ہیں۔

گزشتہ سال چھوٹو گینگ کے سربراہ غلام رسول چھوٹو کو 308 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی ،انسداد دہشتگردی کی خصوصی عدالت نے دیگر دو ملزمان نعمان اور شیرخان کو بھی 298 /298 سال قید کی سزا سنائی تھی۔

انسداد دہشت گردی کی عدالت نے2019 میں غلام رسول عرف چھوٹو اور اس کے بھائی پیارا سمیت 20 ملزمان کو 18، 18 مرتبہ سزائے موت کا حکم سنایا تھا۔

راجن پور کے کچے کے علاقے میں واقع دس کلومیٹر طویل جزیرے پر 2016 میں چھوٹو گینگ کے خلاف آپریشن کیا گیا تھا جس میں فوج، رینجرز اور پولیس نے حصہ لیا تھا۔

ین ہفتوں تک جاری رہنے والے آپریشن میں اغوا کیے گئے 24 پولیس اہلکاروں کو بازیاب کرایا گیا تھا اور سات پولیس اہلکار جاں بحق بھی ہوئے تھے۔ چھوٹو گینگ کے سربراہ غلام رسول نے 12ساتھیوں سمیت غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈال دیے تھے۔

چھوٹو گینگ کے خلاف راجن پور اور رحیم یارخان پولیس نے 2010 میں بھی آپریشن کیا تھا جس کا دورانیہ تین ماہ تھا تاہم اس کے مثبت نتائج برآمد نہیں ہوسکے تھے۔

کچھ سال قبل راجن پور کے علاقے کوٹلہ مغلاں میں ایک آپریشن کیا گیا، جس کے نتیجے میں پولیس نے مغوی ڈاکٹر کو بازیاب کرواکے ایک گینگسٹر کو ہلاک کیا۔

2003-2004 تک اس علاقے کے سربراہ ‘بوسان گینگ’ کے سرغنہ ظفر بوسان اور طارق بوسان تھے، جن کا بعد میں پولیس نے خاتمہ کر دیا تھا۔


متعلقہ خبریں