دہلی فسادات:بھارتی پولیس انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث


انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ 2020 کے دہلی فسادات میں بھارتی پولیس نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کیں اورمشتعل گروہوں کو املاک کو نقصان پہنچانے کی اجازت دی۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق دہلی فسادات میں ز یادہ تر مسلمان قتل اور زخمی ہوئے اور دائیں بازوں کے رہنماؤں نے نفرت انگیز تقاریر کے ذریعے ہنگاموں کو ہوادی۔

انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم کے مطابق فسادات کے دوران دہلی پولیس نے مظاہرین پر تشدد کیا، حراست میں لیے گئے افراد پر مظالم ڈھائے اور بعض اوقات مشتعل ہندو گروہوں کے ساتھ مل کر فسادات میں حصہ لیا۔

خیال رہے کہ فروری2020 میں شہریت کے متنازع قانون کے خلاف مظاہرے ہوئے تھے۔ ان مظاہروں کے دوران ہندو مسلم فسادات ہوئے جس میں بھاری جانی و مالی نقصان ہوا۔ مسلمانوں کے گھروں، دکانوں، مساجد، مدارس، ایک درگاہ اور قبرستان کو نقصان پہنچایا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: بھارتی پولیس مسلمانوں کے قتل اور املاک کو نقصان پہنچانے میں ملوث، رپورٹ

اس قبل جولائی2020 میں دہلی اقلیتی کمیشن نے بھی رپورٹ میں پولیس کو موردِ الزام ٹھہرایا تھا۔

اقلیتی کمیشن کے مطابق مسلمانوں کے خلاف منظم منصوبہ بندی کے تحت فسادات ہوئے، مسلمانوں کے قتل اور املاک کو نقصان پہنچانے میں پولیس بھی ملوث رہی۔

رپورٹ کے مطابق مظاہرین کو منتشر کرنے کے نام پر پولیس کو مسلمان اکثریتی علاقوں میں تعینات کیا گیا اور فسادات کے دوران پولیس خاموش تماشائی بنی رہی۔

خیال رہے کہ بھارت میں 11 دسمبر2019 کو بی جے پی حکومت نے قومی اسمبلی میں متنازعہ شہریت بل منظور کرایا تھا جس کے تحت 31 دسمبر 2014 کے بعد بھارت آنے والے لوگوں کو شہریت نہیں ملے گی تاہم ہندوؤں، بدھوں، سکھوں اور عیسائیوں پر اس کا اطلاق نہیں ہوگا۔

بھارتی حکومت کی طرف سے منظور کیے گئے متنازعہ شہریت بل کے خلاف شمال مشرقی ریاست آسام سے شروع ہونے والے مظاہرے دارالحکومت سمیت میگھالے، مغربی بنگال، اروناچل، اترپریش، کیرالہ، ہریانہ اور پنجاب تک پھیل گئے تھے۔


متعلقہ خبریں