ایون فیلڈ ریفرنس:مریم نواز اور کیپٹن صفدر کی اپیلیں نواز شریف سے الگ


اسلام آباد: ایون فیلڈ ریفرنس میں مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی اپیلوں کو نواز شریف کی اپیل سے الگ کردیا گیا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف، مریم نواز اور کپٹن ریٹائرڈ صفدر کی اپیلوں پر سماعت ہوئی۔ عدالت نے آئندہ سماعت پر مریم نواز کو پیشی سے روکتے ہوئے ریمارکس دیے کہ سیکیورٹی کے مسائل ہوتے ہیں آپ آئندہ سماعت پر پیش نہ ہوں۔

اپیلوں پر سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل دو رکنی بینچ نے کی۔

نوازشریف، مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر نے ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا کے خلاف اپیل دائر کر رکھی تھی۔جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ہم تحریری فیصلے میں آئندہ سماعت کا تعین کر دیں گے۔

عدالت نے درخواست پر سماعت 10 ستمبر تک ملتوی کرتے ہوئے نواز شریف کو بھی طلب کر لیا۔ سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ ن کے تاحیات قائد نوازشریف نے العزیزیہ اور ایون فیلڈ ریفرنس میں حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائر کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں:نوازشریف کو علاج کیلئے لندن میں روکنا میری ضد ہے، مریم نواز

اسلام آباد ہائیکورٹ نے نوازشریف کو سرنڈر کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ سابق وزیراعظم 10 ستمبر کو عدالت کے سامنے پیش ہوں۔

ایون فیلڈ ریفرنس میں شریف خاندان پر الزام ہے کہ انہوں نےغیر قانونی ذرائع کی مدد سےحاصل کی گئی رقم سے لندن کے مہنگے ترین علاقے مے فیئر اور پارک لین کے  نزدیک واقع چار رہائشی اپارٹمنٹس خریدے۔

ایون فیلڈ ریفرنس میں احتساب عدالت نے نواز شریف، ان کی بیٹی مریم اور ان کے داماد کیپٹین ریٹائرڈ صفدر کو جیل، قید اور جرمانہ کی سزا سنائی تھی۔

سزا کے خلاف ملزمان نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا جس نے ستمبر 2018 میں ان سزاؤں کو معطل کر دیا تھا جس کے بعد نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر جیل سے رہا ہو گئے تھے۔

ایون فیلڈ ریفرینس میں سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹین ریٹائرڈ محمد صفدر کو دی گئی سزا معطل کرنے کے فیصلے کے خلاف نیب نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی اور سپریم کورٹ نے دلائل سننے کے بعد اپیل خارج کردی تھی۔

احتساب عدالت نے العزیزیہ ریفرنس میں نوازشریف کو سات سال قید، دس سال کے لیے کسی بھی عوامی عہدے پر فائز ہونے پر پابندی، ان کے نام تمام جائیداد ضبط کرنے اور تقریباً پونے چار ارب روپے کا جرمانہ عائد کیا تھا۔

نوازشریف نے اپنی سزا معطلی کیلئے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کردی تھی اور یہ استدعا کی کہ اپیل پر فیصلہ ہونے تک طبی بنیادوں پر ضمانت پر رہا کیا جائے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے العزیزیہ ریفرنس میں وزیر اعظم نوازشریف کی طبی بنیادوں پر ضمانت کی درخواست پر فیصلہ جاری کرتے ہوئے ان کی سزا آٹھ ہفتوں کے لیے معطل کی تھی۔

عدالت نے حکم دیا ہے کہ آٹھ ہفتوں کے بعد بھی اگر نواز شریف کی طبعیت میں بہتری نہیں آتی تو ان کی سزا کی معطلی میں توسیع کے لیے ایگزیکٹیو اتھارٹی یعنی حکومت پنجاب سے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

نوازشریف کی حالت زیادہ خراب ہونے پر مسلم لیگ ن نے حکومت پنجاب سے اپیل کی کہ سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ ن کے تا حیات قائد کو علاج کی غرض سے باہر جانے کی جازت دی جائے۔

حکومت نے پنجاب نے ملک کے نامور ڈاکٹرز پر مشتمل ایک میڈیکل بورڈ تشکیل دیا تھا جس کی سفارش پر نوازشریف کو علاج کیلئے لندن جانے کی اجازت دی گئی۔


متعلقہ خبریں