اسلام آباد ہائیکورٹ نے نواز شریف کو 15 ستمبر تک سرنڈر کرنے کا ایک اور موقع دیدیا

نواز شریف کی میڈیکل رپورٹس نامکمل ہونے کا انکشاف

فوٹو: فائل


اسلام آباد: العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کی سزا کے خلاف اپیل پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیراعظم کو 15 ستمبر تک سرنڈر کرنے کا ایک اور موقع فراہم کیا ہے۔

العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کی سزا کے خلاف اپیل پر سماعت کے تحریری حکم نامہ میں عدالت نے کہا کہ نواز شریف کو حاضری کا ایک اور موقع دیتے ہوئے سماعت ملتوی کرتے ہیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ  پر مشتمل ججز جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی نے 5 صفحات پر مشتمل حکم نامہ جاری کردیا۔

عدالت نے حکم نامے میں کہا ہے کہ قانون کے مطابق اشتہاری ملزم کو عدالت کے سامنے سرنڈر کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہوتا۔ اشتہاری ملزم سرینڈر کرنے تک کوئی درخواست یا قانونی کارروائی کا آغاز نہیں کر سکتا۔

عدالتتی حلم نامے میں کہا گیا ہے کہ انصاف کے تقاضے پورے کرنے کیلئے نواز شریف کے وکیل کو دلائل دینے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔

اس سے قبل العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کی اپیل پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ سابق وزیر اعظم کی اپیل پر تفصیلی فیصلہ جاری کریں گے۔

آج العزیزیہ اسٹیل مل ریفرنس میں سزا کی اپیل پر سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ نے کی ۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ پرویز مشرف کیس میں ملزم کو مفرور قرار دینے کے بعد عدالت یہ کہہ چکی ہے کہ مفرور کو سرنڈر سے پہلے نہیں سنا جا سکتا۔

عدالت نے کہا کہ ہم اپیل خارج نہیں کر رہے ہیں تاہم دیگر دو اپیلوں پر سماعت ہو سکتی ہے۔ عدالت نے نواز شریف کی درخواست سننے یا نہ سننے کے حوالے سے دلائل طلب کر لیے۔

عدالت کے استفسار پر خواجہ حارث نے کہا کہ نواز شریف اس وقت کسی اسپتال میں داخل نہیں ہیں۔ وہ انجائنہ کے مرض میں مبتلا ہیں اور کورونا وائرس کی وجہ سے انہیں اسپتال میں داخل نہیں کیا جا سکتا۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ملزم کسی بھی اسپتال میں زیر علاج نہیں ہیں اور وہ پاکستان کا سفر کرسکتے ہیں۔ جس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ پنجاب حکومت نے اسی لیے ضمانت میں توسیع کی درخواست مسترد کر دی تھی۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ ایک عدالت پہلے ہی نواز شریف کو مفرور قرا دے چکی ہے۔ ہم تفصیلی فیصلہ جاری کریں گے۔ ہم خواجہ حارث کو موقع دینا چاہ رہے ہیں کہ وہ اپنا قانونی اسٹینڈ ظاہر کریں۔

جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ اگر وارنٹ کا آرڈر جاری کرنا ہوتا تو وہ ہم کر دیتے لیکن ہم نہیں کر رہے۔

عدالت نے استفسار کیا کہ نواز شریف مفرور اور اشتہاری ہونے کے بعد ریلیف کے مستحق ہیں یا نہیں ؟

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ نواز شریف کی ضمانت مسترد ہو چکی ہے اور وہ توشہ خانہ کیس میں اشتہاری بھی ہو چکے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ ہم نواز شریف کو پہلے مفرور ڈیکلیئر کریں گے پہلے اپیل کو سنیں گے۔ اگر نواز شریف اسپتال میں داخل ہوتے تو پھر بات الگ ہوتی۔

عدالت نے نواز شریف کی اپیلوں پر سماعت 15 ستمبر تک ملتوی کر دی۔

گزشتہ روز سابق وزیر اعظم نواز شریف نے ریفرنس میں سرنڈر کرنے کے حکم پر نظرثانی درخواست اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کی تھی اور نواز شریف کے معالج ڈاکٹر فیاض شوال کی جانب سے تیار کردہ میڈیکل رپورٹ بھی ساتھ لگائی گئی جس میں کہا گیا کہ انجائنا کا مرض اب بھی برقرار ہے۔ انجیوگرافی ہونا ضروری ہے اور رش والی جگہ جانا نقصان دہ ہوسکتا ہے۔

درخواست میں استدعا کی گئی کہ طبی بنیادوں پرعدالت طلبی کا حکم واپس لے کر نمائندے کے ذریعے سماعت میں پیش ہونے کا موقع دے۔

ڈاکٹرفیاض شوال نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ نوازشریف کی جلد انجیوگرافی کی جائے گی۔ پاکستان جانے سے پہلے نوازشریف کی انجیوگرافی ضروری ہے۔ انجیوگرافی میں تاخیر کورونا وبا کی وجہ سے ہوئی۔ نوازشریف کی صحت کو سخت خطرات لاحق ہیں۔ کورونا کے دوران نوازشریف کو کسی قسم کے سفر سے منع کیا ہے۔ نوازشریف پہلے سے ہی ذہنی دباوَ کا شکار ہیں۔

نواز شریف کے دوسرے معالج ڈاکٹر ڈیوڈ لارنس کی 4 ستمبر کی رپورٹ کو بھی درخواست کے ساتھ لگایا گیا۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نواز شریف کا علاج لندن میں ہونا بہتر ہے کیونکہ وہاں ڈاکٹرز نواز شریف کی میڈیکل ہسٹری سے آگاہ ہیں۔

ڈاکٹر ڈیوڈ لارنس نے رپورٹ میں لکھا کہ نواز شریف کو کسی عام مریض کی نسبت زیادہ توجہ کی ضرورت ہے۔ نوازشریف کے لیے ائرپورٹ، جہاز کے سفر یا دیگر رش والے مقام پر جانا خطرناک ہے۔

یہ بھی پڑھیں: نواز شریف اپنے علاج کے بعد حکومت کا سیاسی علاج کریں گے، قمر زمان کائرہ

خیال رہے اسلام آباد ہائی کورٹ نے یکم ستمبر کو حکم دیا تھا کہ سابق وزیراعظم العزیزیہ ریفرنس میں عدالت کے سامنے سرنڈر کریں۔ عدالت نے وفاقی حکومت کو بھی ہدایت کی تھی کہ 10 ستمبر تک نوازشریف کے متعلق تمام ریکارڈ جمع کرایا جائے۔

وکیل خواجہ حارث نے عدالت کو آگاہ کیا کہ پنجاب حکومت نے نواز شریف کی ضمانت میں توسیع کی درخواست مسترد کر دی تھی اور اب وہ ضمانت پر نہیں ہیں نواز شریف کو خود کو عدالت کے سامنے پیش کرنا ہو گا۔ انہوں نے بتایا کہ نواز شریف پنجاب حکومت کے فیصلے کو چیلنج بھی کر سکتے ہیں۔

جسٹس عامرفاروق نے ریماکس دیئے کہ لاہور ہائیکورٹ اسلام آباد ہائیکورٹ کے ضمانت کے فیصلے کو سپرسیڈ نہیں کر سکتی تھی۔ لاہور ہائی کورٹ کو سزا معطلی کے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کی حدود میں رہتے ہوئے فیصلہ دینا تھا۔

جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ عدالت ابھی نواز شریف کو مفرور قرار نہیں دے رہی، نواز شریف کو سرنڈر کرنے کا ایک موقع دے رہے ہیں۔ نواز شریف آئندہ سماعت تک پیش نہیں ہوتے تو مفرور قرار دینے کی کارروائی شروع کریں گے۔


متعلقہ خبریں