موٹروے زیادتی کیس: پولیس نے ملزمان کی شناخت ظاہرکر دی، گرفتاری کیلئے چھاپے جاری

لاہور موٹر وے زیادتی کیس: زیر حراست 6 افراد کو رہا کر دیا گیا

فائل فوٹو


لاہور: موٹروے پر خاتون کے ساتھ جنسی زیادتی میں ملوث دو ملزمان کی شناخت ہو گئی، ملزمان کی گرفتاری کے لیے پولیس کی 28 ٹیموں کی کوششیں جاری ہیں۔

موٹروے زیادتی کیس میں ملزمان کی شناخت سائنسی طریقے سے عمل میں آئی۔ آئی جی پنجاب کے مطابق ملزم عابد علی نے اپنی تمام موبائل فون سمز بند کر دی تھیں اور وہ کسی اور کا نمبر استعمال کر رہا تھا۔

انہوں نے کہا کہ پولیس کی ٹیمیں دونوں ملزمان کی تلاش میں لگی ہوئی ہیں۔ جیو فینسنگ سے ملزمان کی جائے واردات پر موجودگی ثابت ہوتی ہے۔

دوسرا ملزم وقار الحسن بھی پولیس کے ہاتھ نہ لگ سکا تاہم پنجاب حکومت نے موٹروے ہیلپ لائن اور ون ون ٹو فور کو ون فائیو سے منسلک کرنے کا فیصلہ کر لیا۔

ذرائع کے مطابق موٹروے زیادتی کیس میں ملوث ایک ملزم کی شناخت عابد علی جبکہ دوسرے کی شناخت  وقار الحسن کے نام سے ہوئی ہوئی ہے۔

ذرائع کے مطابق ملزم عابدعلی کا پروفائل ڈی این اے متاثرہ خاتون کے نمونے سے میچ ہوئے ہوا ہے۔ کریمینل ڈیٹابیس میں عابدعلی 2013 سے موجود ہے۔ ملزم فورٹ عباس کا رہائشی ہے۔ ملزم کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔

مرکزی ملزم کی گرفتاری کیلئے پولیس شیخوپورہ کے گاوَں پہنچی۔ پولیس کی بھاری نفری نے کوٹ پنڈی داس کے گاوَں کا گھیراؤ کیا۔ پولیس کی جانب سے کوٹ پنڈی داس میں بھی سرچ آپریشن جاری رہا۔

ذرائع کے مطابق شیخوپورہ واقعہ کا مرکزی ملزم عابد علی قلعہ ستار شاہ میں رہائش پذیر تھا۔ ملزم نے علاقے کے افراد سے ہفتے کو ملاقات بھی کی اور بعد میں فرار ہو گیا۔ پولیس نے ملزم کی تلاش کیلئے علاقے کو گھیرے میں لے کر سرچ آپریشن کیا۔

موٹروے زیادتی کیس کے دوسرے ملزم کی شناخت وقار الحسن کے نام سے ہوئی۔ مشتبہ ملزم وقار شیخوپورہ کا رہائشی ہے۔ دونوں ملزم ریکارڈ یافتہ ہیں۔ پولیس نے خطرناک ملزموں کا کریمنل ریکارڈ حاصل کر لیا۔

دوسری جانب موٹروے پر درندگی کا نشانہ بننے والی خاتون تاحال خاموش ہے۔ متاثرہ خاتون نے پولیس کو بیان قلمبند کرانے سے انکار کردیا ہے۔ ایس ایس پی ذیشان اصغر کا کہنا ہے، خاتون جب چاہے بیان ریکارڈ کرا سکتی ہے۔

اس سے قبل وزیراعظم کے معاون خصوصی شہباز گل نے کہا تھا کہ موٹروے  پر خاتوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے والے ملزم کا ڈی این اے میچ کرگیا ہے۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں معاون خصوصی شہباز گل نے کہا کہ  وزیراعلیٰ عثمان بزدار، آئی جی پنجاب اور سی سی پی او لاہور سمیت پوری ٹیم کو مبارک ہو۔ وزیراعلیٰ عثمان بزدار رات 4 بجے تک اجلاس میں تھے۔ ملزم کی انشاللہ جلد گرفتاری بھی ہوگی۔ وزیراعلی ٰ پنجاب عثمان بزدار نےپورے کیس کی خود نگرانی کی۔ کام بولتا ہے الفاظ نہیں، ویلڈن وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار۔

اس سے قبل انسپکٹر جنرل (آئی جی) پنجاب انعام غنی  نے کہا تھا کہ تاحال کوئی ملزم گرفتار نہیں ہوا ہے، تاہم پولیس دن رات ملزمان کی تلاش میں مصروف ہے۔

گزشتہ روز موٹروے پر مبینہ طور پر اجتماعی زیادتی کا شکار بننے والی خاتون کا اے ٹی ایم کارڈ استعمال کرنے والے 2 مشتبہ افراد کو حراست میں لے لیا گیا تھا۔

پولیس ذرائع کے مطابق مشتبہ افراد نے متاثرہ خاتون کے اکاوَنٹ سے رقم کی ٹرانزیکشن کی کوشش کی۔ دونوں افراد کے ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے سیمپلز لے لیے گئے تھے۔

دوسری جانب موٹروے  پر زیادتی  کا  شکار خاتون کی ابتدائی میڈیکل رپورٹ سامنے آگئی تھی۔ میڈیکل رپورٹ میں خاتون کے ساتھ زیادتی ثابت ہوگئی ہے۔

ذرائع کے مطابق متاثرہ خاتون کا میڈیکل کوٹ خواجہ سعید اسپتال سے کرایا گیا۔ 7 مشتبہ افراد کا ڈی این اے میچنگ کروا لیا گیا۔  پولیس نے کرول گاؤں کے سینتالیس مردوں کے ڈی این اے سیمپل بھی لے لیے ہیں۔ 

دوسری طرف پولیس نے جائے وقوعہ کے اطراف میں رہائشیوں  سمیت 70 سے زائد  جرائم یافتہ افراد کو شارٹ لسٹ بھی کر لیا گیا ہے۔ 

اس سے قبل پولیس نے کہا تھا کہ متاثرہ خاتون کی گھڑی اورانگھوٹھی مل گئی ہے اور 15 مشتبہ افراد  کو حراست  میں لیا گیا ہے۔

پولیس ذرائع کے مطابق موٹر وے پر خاتون کے ساتھ زیادتی کے واقعہ کی تحقیقات میں روایتی اور جدید دونوں طریقوں سے تفتیش کی جا رہی ہے۔ وزیر اعظم پاکستان اور وزیر اعلیٰ پنجاب کی ہدایت پر آئی جی پنجاب کیس میں ہونے والی پیش رفت کی خود نگرانی کر رہے ہیں۔

کھوجیوں کی مدد سے جائے وقوعہ کے اطراف 5 کلومیٹر کا علاقہ چیک کرکے مشتبہ پوائنٹس مارک کر لئے گئے اور کھوجیوں کی نشاندہی سمیت مختلف شواہد پر پندرہ مشتبہ افراد کو حراست میں لیا گیا اور ڈی این اے ٹیسٹ کروائے گئے ہیں جن کی رپورٹس کا انتظار ہے۔

ایف آئی آر میں نامزد ملزمان سے ملتے جلتے حلیہ جات کے حامل 15 مشتبہ افرادکی پروفائلنگ کی گئی ہے۔ تین مختلف مقامات سے جیو فینسنگ کیلئے موبائل کمپنیوں کے حاصل کردہ ڈیٹا کا تجزیہ کیا جارہا ہے۔ لوکل کیمرہ جات سے مشتبہ افراد کو ویڈیو ریکارڈنگ حاصل کرکے شناخت کو آگے بڑھایا جارہا ہے۔

وزیراعلیٰ پنجاب نے تحقیقات کے لیے پانچ رکنی انکوائری کمیٹی بھی تشکیل دی ہے۔ وزیرقانون راجہ بشارت کو کمیٹی کے کنوینرمقرر کیا گیا ہے جب کہ ایڈیشنل چیف سیکرٹری ہوم، ایڈیشنل آئی جی سپیشل برانچ کمیٹی، ڈی آئی جی انوسٹیشن پنجاب ڈاکٹرمسعودسلیم اور ڈی جی فرنزک ایجنسی، کمیٹی کے ممبر ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:خواتین رات کو اکیلی باہر نہ نکلیں، سی سی پی او لاہور بیان پر قائم

کمیٹی سے تین روز میں رپورٹ طلب کی گئی ہے۔ جبکہ کمیٹی آئندہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے سفارشات بھی مرتب کرے گی۔

پولیس کی20ٹیمیں تفتیش میں مصروف ہیں جب کہ متاثرہ خاتون اور حراست میں لیے گئے افراد کے سیمپلز فرانزک لیب بھجوا دئیے گئے ہیں۔

پولیس ذرائع کے مطابق لاہور تا سیالکوٹ موٹروے پر خاتون سے اجتماعی زیادتی کے واقعہ کی تحقیقات جاری ہیں۔جائے وقوعہ کی جیو فینسنگ کر دی گئی ہے ملزموں کی تلاش کیلئے سی سی ٹی وی فوٹیجز کی مدد بھی لی جا رہی ہے۔ پولیس نے متاثرہ خاتون کے بیان پر ملزمان کے خاکے بھی بنوا لیے ہیں۔


متعلقہ خبریں