موٹر وے زیادتی کیس: سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے سی سی پی او لاہور کو طلب کر لیا

فائل فوٹو


اسلام آباد: سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے موٹر وے زیادتی کیس سے متعلق کیس میں کیپیٹل سٹی پولیس آفیسر (سی سی پی او) لاہور عمر شیخ کو طلب کر لیا ہے۔

چئیرمین سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے داخلہ سینیٹر رحمان ملک کا کہنا ہے کہ سی سی پی او لاہور عمر شیخ کو 21 ستمبر کو طلب کیا ہے۔ خاتون زیادتی کیس کی رپورٹ بھی طلب کی ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر اعظم سواتی کا کہنا ہے کہ زیادتی کے ایسے واقعات کے فیصلے 3 ماہ کے اندر ہونے چاہئیں۔

اس سے قبل قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے کہا کہ  ہمیں ریپ کیسز میں تفتیش کے لیےخواتین آفسران کو تربیت دینی ہوگی، کیونکہ خواتین ہی خواتین کا دکھ درد سمجھ سکتی ہیں۔

ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کی زیر صدارت اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ لاہور موٹر وے پر خاتون سے زیادتی کا واقعہ بہت افسوسناک ہے۔ موٹروے واقعے نے پوری قوم کو جنجھوڑ کر رکھ دیا۔ عوام اور خواص چاہتے ہیں کہ ملزمان کو سرعام پھانسی دی جائے۔ سرعام پھانسی غم وغصے کا اظہار ہے۔

فواد چوہدری نے کہا کہ ایسے واقعات پے درپے ہورہے ہیں۔  واقعات پر ایک مہینہ شور ہوتا ہے پھر بھول جاتے ہیں۔  پاکستان میں ہر سال 5 ہزار ریپ کیسز رپورٹ ہوتے ہیں۔ پنجاب میں 190 کیسز گینگ ریپ کے رپورٹ ہوئے۔

انہوں نے کہا کہ  بے شمار لوگ یہ کیسز رجسٹر ہی نہیں کراتے ہیں۔  لوگ اس لیے کیس رپورٹ نہیں کرتے کہ کہیں پولیس افسر یہ نہ پوچھ لیں کہ پیٹرول کیوں چیک نہیں کیا۔  اس لیے کیسز رپورٹ نہیں ہوتے کہ ججز کے در پر چکر لگاتے رہو،آخر میں تاریخ پر پیشی کے لیے بھی پیسے ختم ہوجاتے ہیں۔

مزید پڑھیں: موٹروے زیادتی کیس: مرکزی ملزم شفقت سمیت تینوں ملزمان جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا

فواد چوہدری نے کہا کہ پاکستان میں ریپ کے  واقعات پے درپے ہورہے ہیں اور ہم بھی متشدد ہوتے جارہے ہیں۔  پاکستان میں ریپ کیسز پر صرف 5 فیصد سزائیں دی جاتی ہیں۔  عدالتوں کو ہاتھ جوڑ کر کہنا پڑے گا کہ ججز کو ٹریننگ دیں۔ ایسے کیسز میں صلح نہیں ہوسکتی، ملزم عابد نے پہلے بھی صلح کے ذریعےمعاملہ ختم کیا تھا۔

قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ موٹروے واقعہ پرہم سب کے دل افسردہ ہیں۔ ہمارے ملک میں سزا اور جزا کا نظام بوسیدہ ہوچکا ہے۔ متاثرہ شخص کو انصاف کے حصول میں قدم قدم پر مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے۔

 

 


متعلقہ خبریں