بادی النظر میں پولیس کا نظام فیل ہو چکا، لاہور ہائیکورٹ

بھارتی خاتون کا پاکستانی شہریت کیلئے ہائیکورٹ سے رجوع

فائل فوٹو


لاہور: ڈی آئی جی لیگل نے موٹروے زیادتی کیس کی رپورٹ عدالت میں پیش کی جس پر چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بادی النظر میں پولیس کا نظام فیل ہو چکا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ موٹروے یا کسی روڈ پرایسا واقعہ پیش آئے تو ذمہ دار حکومت ہوتی ہے، ایسے واقعات پر حکومت کو متاثرہ افراد کو معاوضہ دینا چاہیے۔

سرکاری وکیل کا کہنا تھا کہ ہر جگہ پر پٹرولنگ کا موثر نظام بنانے جا رہے ہیں۔ محکمہ پولیس کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا کہ پورے پنجاب میں پڑولنگ کا موثر نظام موجود ہے۔

چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے ریماکس دیئے کہ مجھے لوگوں کی سیکیورٹی چاہیے۔ آپ کا پرانا پیٹرولنگ سسٹم ناکام ہو گیا ہے۔ عدالت کو بتایا جائے کہ آئی جی پنجاب اور ماتحت پولیس افسران روزانہ کتنے گھنٹے گشت کریں گے؟

عدالت کہا کہ بتایا جائے متاثرہ افراد کو کیسے کمپن سیشن دی جا سکتی ہے؟ لاہور ہائی کورٹ نے آئی جی پنجاب کے ہفتہ وار گشت کا شیڈول بھی طلب کیا ہے۔  ڈی پی اوز کے گشت کا شیڈول بھی طلب کیا گیا ہے۔

عدالت نے استفسار کیا کہ بتائیں آئی جی پنجاب روزانہ کتنے گھنٹے بدل بدل کر کہاں گشت کرے گا؟ رات 11 سے ایک بجے ہر ضلع میں ایک سینئر افسر روڈ پر ہونا چاہیے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر میں اپنی عدالت میں کام نہیں کروں تو سول جج تونسہ سے کام نہیں لے سکتا۔ جو بندہ گورنمنٹ کی پراپرٹی پر قتل یا زخمی ہو جائے، حکومت کو رقم دینی چاہیے۔ حکومت آئین کے تحت شہریوں کے تحفظ کی پابند ہے۔

چیف جسٹس لاہورہائی کورٹ نے استفسار کیا کہ کیا حکومت قتل کیسز میں ودیت دیتی ہے؟ عدالت نے سرکاری وکیل کو ودیت قانون پر معاونت کرنے کی ہدایت بھی کی۔ درخواست پر سماعت ملتوی کرتے ہوئے عدالت نے آئندہ سماعت پر وکلا کو بحث کے لیے طلب کرلیا ہے۔


متعلقہ خبریں