ٹرمپ انتظامیہ کا گوگل اور ایپل سمیت امریکی کمپنیوں کو چینی اپیس ہٹانے کا حکم


ٹرمپ انتظامیہ نے گوگل اور ایپل سمیت امریکی کمپنیوں کو اپنے پلیٹ فارمز سے چینی اپیس ہٹانے کا حکم دے دیا ۔

خبررساں ادارے روئٹرز کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ 20 ستمبر سے ٹک ٹاک اور وی چیٹ ڈاون لوڈ کرنے پر پابندی عائد کرے گی۔

امریکی محکمہ تجارت کے حکام کا کہنا ہے کہ امریکہ سے باہر گوگل یا ایپل پر ٹک ٹاک یا وی چیٹ کی سروس فراہم کرنے پر پابندی عائد نہیں ہو گی۔

ان کا کہنا تھا کہ ٹک ٹاک اور وی چیٹ کے موجودہ  صارفین کو امریکہ میں نئی اپڈیٹس کی سہولت حاصل نہیں ہو گی۔

انہوں نے واضح کیا کہ امریکی حکومت صدر کے احکامات کے تناظر میں قومی سلامتی کے تحفظ کے لیے تمام اقدامات اٹھا رہی ہے۔

یاد رہے کہ 25 اگست کو ٹک ٹاک انتظامیہ نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلے کو کیلیفورنیا کی عدالت میں چیلنج کیا تھا۔

ٹک ٹاک کی جانب سے دی گئی درخواست میں امریکی صدر کا فیصلہ چین مخالف مہم کا حصہ قرار دیا گیا تھا اور الزام عائد کیا گیا کہ ٹرمپ چین مخالف بیانیے سے دوبارہ الیکشن جیتنا چاہتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: صدر ٹرمپ کا امریکا میں چینی ایپ ٹک ٹاک پر پابندی کا اعلان

ٹک ٹاک انتظامیہ کی جانب سے مزید کہا گیا کہ صارف کے ڈیٹا کی رازداری اور حفاظت کے لیے غیر معمولی اقدامات کیے۔

قبل ازیں ویڈیو ایپ ٹک ٹاک کی مالک کمپنی بائٹ ڈانس نے امریکہ میں اپنی ایپ پر پابندی کے رد عمل میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ 

صدر ٹرمپ نے7 اگست کو ایک ایگزیکٹیو آرڈر کے ذریعے ٹک ٹاک کی مالک کمپنی بائٹ ڈانس کے ساتھ ہر قسم کی لین دین پر پابندی عائد کی تھی۔

اس حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ امریکہ کو قومی سلامتی کے پیشِ نظر ٹک ٹاک کے مالکان کے خلاف جارحانہ کارروائی کرنا ہوگی۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام کو ٹک ٹاک سے کوئی خطرہ نہیں ہے، فواد چوہدری

ویڈیو ایپلی کیشن کی انتظامیہ نے ایک بیان میں کہا کہ امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے ان پر لگائے گئے الزامات بے بنیاد اور عالمی مارکیٹ کے قوانین کے خلاف ہیں۔ بیان میں کہا گیا کہ امریکی صدر ایک امریکی کمپنی سے ٹک ٹاک خریدنے سے متعلق ڈیل کررہے ہیں۔

چین کی بائٹ ڈانس نامی کمپنی نے دسمبر 2018 میں ٹک ٹاک کو متعارف کرایا تھا اور اب یہ دنیا کی مقبول ترین سوشل میڈیا ایپ چکی ہے۔

امریکہ میں 2020 کے پہلے تین ماہ میں 315 ملین افراد نے ٹک ٹاک ایپ ڈاون لوڈ کی تھی۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ چینی قوانین کے تحت وہاں نجی کمپنیوں کو وہاں کی خفیہ ایجنسیوں کیساتھ تعاون کرنا پڑتا ہے جس کے باعث امریکی عوام کی معلومات کے غلط استعمال کا خدشہ ہے۔


متعلقہ خبریں