اسلام آباد میں بڑھتے جرائم، عدالت کا مشیر داخلہ کو رپورٹ جمع کرانے کا حکم

فائل فوٹو


اسلام آباد ہائی کورٹ نے گمشدگیوں اور جرائم کے بڑھتے کیسز سے متعلق کیس میں مشیر داخلہ کو حکم دیا ہے کہ 3 ہفتوں میں مفصل رپورٹ جمع کرائی جائے۔

چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیئے کہ سارا نظام کرپٹ ہو چکا ہے اور یہ ایک دن میں نہیں ہوا، عدالت کے سامنے آیا ہے کہ ریاست کی رٹ کہیں نہیں۔

فاضل جج نے کہا کہ پولیس کے تفتیشی افسران تربیت یافتہ نہیں۔ تفتیشی افسران کاتربیت یافتہ نہ ہونا شہریوں کے بنیادی حقوق پر اثرانداز ہوتا ہے۔

اطہرمن اللہ نے کہا کہ مفادات کا ٹکراؤ ہر جگہ نظر آ رہا ہے اور اسلام آباد میں اسکی ذمہ دار وفاقی حکومت ہے۔اسلام آباد کو ماڈل شہر ہونا چاہیے لیکن یہاں پراسیکیوشن برانچ تک نہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ڈسٹرکٹ کورٹ جا کر حال دیکھیں عدالتیں غیرانسانی حالت میں چل رہی ہیں۔ ڈسٹرکٹ کورٹ میں عام آدمی جاتا ہے اور اسکی حالت ابتر ہے۔

عدالت نے ریمارکس دیئے کہ اسلام آباد میں صرف ایلیٹ کی خدمت کی جا رہی ہے اور یہ ریاست کی ترجیحات بتاتا ہے۔

شہزاد اکبر کو مخاطب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ آپ مشیر اور وزارت کے انچارج ہیں۔ آپ اپنی مہارت سے ان چیزوں کا حل نکالیں اور رپورٹ جمع کرائیں۔

چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا وزیراعظم کو بتائیں کہ شہریوں کے بنیادی حقوق متاثر ہو رہے ہیں۔ حکومت کی پولیٹیکل وِل ہی ان معاملات میں بہتری لا سکتی ہے۔

شہزاد اکبرکا کہنا تھا کہ میں خود گمشدگیوں کے کیسز میں عدالتوں میں پیش ہوتا رہا ہوں کیس میرے قریب ہے۔جیسے ہی یہ معاملہ وزیراعظم کے علم میں آیا انہوں نے اسکا نوٹس لیا کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔

عدالت کو بتایا گیا کہ وزیراعظم کی جانب سے اس معاملے پر کمیٹی تشکیل دیدی گئی ہے۔ کمیٹی نے ایک ہفتےمیں ملک بھر سے کمشدگی کے کیسز کا ریکارڈ طلب کر لیا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ایک تفتیشی افسرکو تفتیش کیلئے300روپے ملیں تو وہ باقی کہاں سے لائے گا۔ یہ کرپشن کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔

فاضل جج نے کہا کہ مفادات کا ٹکراؤ بہت سنجیدہ معاملہ ہے۔ وزارت داخلہ خود ریئل اسٹیٹ کے کاروبار میں ملوث ہے۔ اسلام آباد میں ہر طرف مفادات کے ٹکراؤ کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ وزیراعظم کو اس بات کا علم ہونا چاہیے کہ عام لوگ کیسے متاثر ہو رہے ہیں۔ ایلیٹ کلچر اپنے اختتام کو پہنچ چکا بات ختم۔


متعلقہ خبریں