ایک قوم بننے کیلئے ہمیں تفرقے سے بچنا چاہیے، صدرمملکت


اسلام آباد: صدرمملکت عارف علوی نے کہا ہے کہ ایک قوم بننے کے لیے ہمیں تفرقے سے بچنا چاہیے۔

ایوان صدر اسلام آباد میں وحدت امت کانفرنس  سے خطاب  کرتے ہوئے صدرمملکت  نے کہا کہ ماضی میں ایران اورعراق کو لڑوایا جاتا رہا،۔ مسلمان نااتفاقی کے باعث پہلے ہی تاریخ میں بہت نقصانات اٹھاچکے ہیں۔

صدرمملکت نے کہا کہ ہمیں اللہ کی رسی کو مضبو طی سے تھامے رکھنا چاہیے۔ بعض مذہبی رہنما جذبات میں آکر ایسی باتیں کر جاتے ہیں جن سے نفرتیں بڑھتی ہیں۔ علما و مشائخ کے تعاون سے کورونا وبا کے دوران بھی مساجد کھلی رہیں۔

انہوں نے کہا کہ تمام مکاتب فکر کے علما و مشائخ نے قرار دیا ہے کہ مذہب کے نام پر دہشت گردی، انتہا پسندی ، قتل و غارت گری اسلام کے منافی ہے۔

کانفرنس میں ملک بھر سے دو سو سے زائد علما و مشائخ ،اسلامی اور یورپی ممالک کے سفیروں نے شرکت کی۔  کانفرنس کا مشترکہ اعلامیہ چیئرمین پاکستان علماء کونسل حافظ طاہر محمود اشرفی نے جاری کیا۔

کانفرنس کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ آئین کے مطابق تمام مذاہب اور مسالک کے لوگ اپنی ذاتی اور مذہبی زندگی گزار سکتے ہیں۔ مقدسات اسلام کی توہین کرنے والوں کا کسی مکتب فکر سے کوئی تعلق نہیں، ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔

 اعلامیے میں مطالبہ کیا گیا کہ اقوام متحدہ اور او آئی سی مسئلہ کشمیر و فلسطین کے حل کے لیے  موثر کردار ادا کریں۔

یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے وفاقی وزیر برائے انسداد منشیات شہریار آفریدی نے کہا تھا کہ ملک میں فرقہ واریت کی روک تھام کے لیے سنجیدہ اقدامات اٹھانے ہوں گے۔

اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شہریارآفریدی نے کہا تھا کہ پاکستان میں مذہبی منافر ت پھیلانےکی کوشش ہورہی ہے۔  سوشل میڈیاکے ذریعےاس ملک میں کھیل کھیلاجارہا ہے۔

انوہں نے کہا تھا کہ سن 1253 میں ہلاکوخان نے بغداد میں چڑھائی کی. ہلاکوخان نے 2 لاکھ فوج کے ساتھ بغداد کا رخ کیا تھا. ہلاکوخان نے بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجائی تھی۔

انہوں نے کہا تھا کہ ملک فرقہ واریت کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اس کی روک تھام کے لیے سنجیدہ اقدامات اٹھانے ہوں گے۔

خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے کاونٹر ٹیراریزم ڈیپارٹمنٹ پنجاب نے سوشل میڈیا پر مذہبی منافرت پھیلانے والے 218 افراد گرفتار کرلیے تھے۔

ترجمان سی ٹی ڈی کے مطابق گرفتارملزمان کیخلاف مقدمات بھی درج کرلیے گئے تھے جبکہ مذہبی منافرت پھیلانے والی 4 ہزار سے زائد سائٹس بھی بلاک کردی گئی تھیں۔

خیال رہے کہ اس سے قبل پنجاب حکومت نے سوشل میڈیا پر مذہبی منافرت پھیلانے والوں کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے قانون سازی کا فیصلہ کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ٹوئٹر نے مذہبی منافرت پھیلانے والے مواد پر پابندی لگا دی

اس ضمن میں پنجاب حکومت نے وفاقی حکومت سے رابطہ بھی کیا تھا۔ پنجاب حکومت نے وفاق سے سائبر ایکٹ میں صوبائی حکومت کو اختیار دینے کے لیے  ترامیم کی درخواست کی تھی۔

وزیر قانون پنجاب راجہ بشارت نے اس حوالے سے بتایا تھا کہ مذہبی منافرت پھیلانے والے افراد کے خلاف کارروائی کا اختیار صوبائی حکومت کے پاس نہیں ہے۔

 


متعلقہ خبریں