اسلام آباد: مسلح ملزمان نے شہری سے موبائل فون چھین لیا


اسلام آباد:  وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے جی 11 مرکز میں اسلحہ کی نوک پر موبائل فون چھیننے کی واردات پیش آئی ہے۔

ذرائع کے مطابق دو موٹر سائیکل سوار شہری سے موبائل فون چھین کر فرار ہوگئے۔ شہری راہ چلتے موبائل پر فون سن رہا تھا، جب ملزمان نے اسلحے کی نوک واردات کر ڈالی۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ نے اسلام میں گمشدگیوں اور جرائم کے بڑھتے کیسز سے متعلق کیس میں مشیر داخلہ کو حکم دیا تھا کہ 3 ہفتوں میں مفصل رپورٹ جمع کرائی جائے۔

چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے تھے کہ سارا نظام کرپٹ ہو چکا ہے اور یہ ایک دن میں نہیں ہوا۔ عدالت کے سامنے آیا ہے کہ ریاست کی رٹ کہیں نہیں۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد میں نیب افسر کے گھر ڈکیتی

فاضل جج نے کہا تھا کہ پولیس کے تفتیشی افسران تربیت یافتہ نہیں۔ تفتیشی افسران کاتربیت یافتہ نہ ہونا شہریوں کے بنیادی حقوق پر اثرانداز ہوتا ہے۔

جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا تھا کہ مفادات کا ٹکراؤ ہر جگہ نظر آ رہا ہے اور اسلام آباد میں اسکی ذمہ دار وفاقی حکومت ہے۔اسلام آباد کو ماڈل شہر ہونا چاہیے لیکن یہاں پراسیکیوشن برانچ تک نہیں۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ ڈسٹرکٹ کورٹ جا کر حال دیکھیں عدالتیں غیرانسانی حالت میں چل رہی ہیں۔ ڈسٹرکٹ کورٹ میں عام آدمی جاتا ہے اور اسکی حالت ابتر ہے۔

عدالت نے ریمارکس دیے تھے کہ اسلام آباد میں صرف ایلیٹ کی خدمت کی جا رہی ہے اور یہ ریاست کی ترجیحات بتاتا ہے۔

شہزاد اکبر کو مخاطب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا تھا کہ آپ مشیر اور وزارت کے انچارج ہیں۔ آپ اپنی مہارت سے ان چیزوں کا حل نکالیں اور رپورٹ جمع کرائیں۔

چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا تھا وزیراعظم کو بتائیں کہ شہریوں کے بنیادی حقوق متاثر ہو رہے ہیں۔ حکومت کی پولیٹیکل وِل ہی ان معاملات میں بہتری لا سکتی ہے۔

شہزاد اکبرکا کہنا تھا کہ میں خود گمشدگیوں کے کیسز میں عدالتوں میں پیش ہوتا رہا ہوں کیس میرے قریب ہے۔جیسے ہی یہ معاملہ وزیراعظم کے علم میں آیا انہوں نے اسکا نوٹس لیا کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔

عدالت کو بتایا گیا تھا کہ وزیراعظم کی جانب سے اس معاملے پر کمیٹی تشکیل دیدی گئی ہے۔ کمیٹی نے ایک ہفتےمیں ملک بھر سے کمشدگی کے کیسز کا ریکارڈ طلب کر لیا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا تھا کہ ایک تفتیشی افسرکو تفتیش کیلئے300روپے ملیں تو وہ باقی کہاں سے لائے گا۔ یہ کرپشن کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔

 


متعلقہ خبریں