میں بھی کہوں گا کہ مجھے کیوں نکالا، جلیل شرقپوری

فائل فوٹو


لاہور: مسلم لیگ(ن) رہنما جلیل شرقپوری نے کہا ہے کہ پارٹی سے ہمیں ایسے تو نہیں نکالا جاسکتا، وزیراعلیٰ پنجاب سے ملنا کوئی غیر قانونی کام نہیں، میں بھی کل یہی کہوں گا کہ مجھے کیوں نکالا۔

ان کا کہنا تھا کہ اگروزیراعظم سے پیپلزپارٹی والے ملاقات کریں تو یہ پارٹی خلاف ورزی میں نہیں آتا۔میں وزیراعلیٰ پنجاب سے کام کے معاملے میں بارہا ملا ہوں۔

ن لیگی رہنما کا کہنا تھا کہ پارٹی میں اختلاف رائے ہوتی ہے اس کا مطلب یہ نہیں پارٹی چھوڑدوں۔ نوازشریف کی ٹکراوَ کی پالیسی غیر مناسب ہے۔ سڑکوں پر آنا، احتجاج اور جلسے کرنا مناسب نہیں۔

انہوں نے کہا کہ ملک مزید بحران کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اگر پارٹی عثمان بزدار کے خلاف حق پر تحریک عدم اعتماد لائے گی تو ساتھ دوں گا۔

جلیل شرقپوری نے کہا کہ حلقے کے کاموں کے سلسلے میں وزیراعلیٰ سے ملاقات کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ میرے بیانات اگر راناثنااللہ یا کسی اور کو مناسب نہیں لگتے تو اس کا ذمہ دار میں نہیں۔ بڑے دل والوں کو چھوٹی سوچ کو دماغ میں جگہ نہیں دینی چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: عثمان بزدار سے ملاقات کرنے والے اراکین کو پارٹی سے نکالنے کا فیصلہ

ان کا کہنا تھا کہ یہاں نہ جاؤ وہاں نہ جاؤ یہ پالیسی کسی بھی پارٹی کے حق میں نہیں۔ منتخب اراکین وزیراعلیٰ اوروزیراعظم سے ملاقاتیں کرتے رہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میں چوہدری نثار کی رائے کوآج بھی حق بجانب سمجھتا ہوں، چودھری نثار کے معاملے میں بھی نوازشریف کی پالیسی سخت تھی۔

خیال رہے جلیل شرقپوری کا شمار اُن ن لیگی رہنماؤں میں ہوتا ہے جن کو پارٹی سے نکالنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ جلیل احمد شرقپوری کی رکنیت بھی معطل ہے۔

جولائی میں وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار سے پیپلز پارٹی کے غضنفر علی خان، مسلم لیگ ن کے میاں جلیل احمد شرقپوری، چوہدری اشرف علی، محمد غیاث الدین، اظہر عباس، محمد فیصل خان نیازی، نشاط احمد خان ڈاھا اور دیگر اراکین اسمبلی نے ملاقات کی تھی۔

ن لیگی رہنماؤں کی عثمان بزدار سے دوسری ملاقات ستمبر میں ہوئی تھی جس پر ایکشن لیتے ہوئے پارٹی نے پانچ اراکین کو نکالنے کا فیصلہ کیا ہے۔


متعلقہ خبریں