پشاور میں ماحولیاتی آلودگی پر چیف جسٹس برہم


پشاور: چیف جسٹس گلزار احمد نے  خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور ماحولیاتی آلودگی کی روک تھام کیلئے انتظامات نہ ہونے پر سخت برہمی کا اظہار کیا ہے۔

سپریم کورٹ پشاور رجسٹری میں ماحولیاتی آلودگی سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران تین رکنی بنچ کی سربراہ کرتے ہوئے چیف جسٹس گلزار احمد نے برہمی کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ جو لوگ کام نہیں کرتے، فارغ کرکے نئے لوگ لے آئیں۔ یہ اے سی کے کمرے میں بیٹھے ہوتے ہیں،صرف خط لکھتے ہیں۔

متعلقہ حکام کو مخاطب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پشاور شہر میں بہت بری حالت ہے، ہرجگہ آلودگی ہے، آپ کی رپورٹ میں غیرسنجیدگی کا مظاہرہ کیا گیا ہے، آپ کے کوئی عملی اقدامات نظر نہیں آئے، کاغذی معاملات میں ہمیں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کہتے ہیں بلین ٹری لگائے لیکن ہمیں کوئی درخت نظر نہیں آیا، اگر کورونا نہ ہوتا تو بھی آلودگی کی وجہ سے فیس ماسک لگاتے۔

تین رکنی بینچ میں شامل جج جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیے کہ ہم نے شہر کا حال اپنی آنکھوں دیکھ لیا ہے۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ چھوٹے شہر کا یہ حال ہے تو بڑے شہروں کا کیا حال ہوگا۔

عدالت نے 4 ہفتوں میں تفصیلی رپورٹ طلب کر کے سماعت ملتوی کردی۔

خیال رہے کہ رواں سال مارچ میں چیف جسٹس جسٹس گلزار احمد نے چیئرمین کیپیٹل ڈیویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) عامر احمد علی اور میئر اسلام آباد انصر عزیز کی ماحولیاتی آلودگی سے متعلق میں کیس سرزنش کی تھی۔

چیف جسٹس نے کہا تھا کہ سی ڈی اے کا اپنے ملازمین پر کوئی کنٹرول نہیں اور اس کے کلرک چیئرمین سے زیادہ طاقتور ہیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا تھا  کہ شہر کا بلیو ایریا کوڑا کرکٹ سے بھرا پڑا ہے، ایک پلازے والوں نے سروس روڈ پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ اسلام آباد شہر کو اتنا پھیلایا کیوں جا رہا ہے؟ کیا پورے اسلام آباد کو صنعتی زون بنانا چاہتے ہیں؟

یہ بھی پڑھیں: ماحولیاتی تبدیلیاں مستقبل کیلئے بڑا خطرہ ثابت ہوسکتی ہیں، وزیراعظم

جسٹس گلزار احمد نے کہا تھا کہ سی ڈی اے رپورٹس میں اچھی انگریزی کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا، دوبئی والے اپنی ایکسپائر چیزیں پاکستان بھجوا دیتے ہیں۔

عدالت نے ہدایت کی تھی کہ اسلام آباد کی اپنی فوڈ اتھارٹی بنائیں اور ایسی صنعتوں کو نہ چلائیں جو شہر آلودہ کریں اور ہمیں سی ڈی اے اقدامات کا رزلٹ نظر آنا چاہیے۔

چیف جسٹس نے کہا تھا کہ آپ کے کینال کچرے سے بھرے ہوئے ہیں، کینال کے اطراف کوئی حالات نہیں کوئی آدمی وہاں جا نہیں سکتا، جو لوگ بڑے بڑے بنگلوں میں رہتے ہیں انھیں احساس نہیں ہے اور اپنے بنگلوں کے سامنے کچرے کا ڈھیر لگا دیتے ہیں۔

عدالت نے متعلقہ حکام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ شہر کو خوبصورت بنانا آپ کا کام ہے، اس شہر کا کوئی معیار ہی نہیں ہے، شہر کا معیار بنائیں، شہر میں بیٹھنے کی چلنے پھرنے کی جگہ ہونی چاہیے۔

چیئرمین سی ڈی اے عامر احمد علی نے عدالت کو بتایا تھا  کہ سی ڈی اے کو فنڈز کی کمی کا سامنا ہے۔ جن ملازمین کا تبادلہ کرتا ہوں وہ حکم امتناع لے آتے ہیں اور کرپٹ مافیا کو معطلی سے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن اب کرپٹ ملازمین اور افسران کے کیسز ائف آئی اے کو بھجوائے جا رہے ہیں۔

چیرمین سی ڈی اے اور مئیر اسلام آباد نے عدالت کو ماحولیاتی آلودگی سے نجات کیلئے اقدامات اٹھانے کا یقین دلایا تھا اور آئی نائن کی انڈسٹری کو ماحولیاتی قوانین کا پابند بنانے کی یقین دہانی بھی کروائی تھی۔

 

 


متعلقہ خبریں