کلبھوشن کیس: بھارت نے عدالتی کارروائی کا حصہ بننے سے انکار کردیا، اٹارنی جنرل

کلبھوشن کیلئے وکیل مقرر کرنے کا معاملہ، 2 وکلا کی عدالتی معاونت سے معذرت

فائل فوٹو


اسلام آباد:  اٹارنی جنرل نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو بتایا کہ بھارت کو کلبھوشن یادیو کی فکر نہیں، وہ محض سیاست کر رہا ہے، بھارت نے ایک بار پھر عدالتی کارروائی کا حصہ بننے سے انکار کردیا ہے۔ بھارت یہ کیس نہیں لڑنا چاہتا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو وکیل فراہم کرنے سے متعلق کیس کی سماعت کی۔

اٹارنی جنرل آف پاکستان نے عدالت کو بتایا کہ عدالتی حکم پر وزارت خارجہ نے بھارتی وزارت خارجہ سے رابطہ کیا۔ بھارت نے اپنے جواب میں اپنا پہلا موقف قائم رکھا۔
بھارت نے اعتراض اٹھایا ہے کہ پاکستان نے بامعنی قونصلر رسائی نہیں دی۔ ایسا لگ رہا ہے کہ بھارت کلبھوشن یادیو کی سزا سے متعلق فکرمند نہیں ہے۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ بھارت کو کلبھوشن کی فکر نہیں وہ محض سیاست کر رہا ہے۔ بھارت نے ایک بار پھر عدالتی کارروائی کا حصہ بننے سے انکار کردیا۔

انہوں نے عدالت کو بتایا لندن میں کوئینز کونسل کو بطور وکیل پیش کرنے کے اجازت مانگی گئی۔ 4 ستمبر کووزارت خارجہ نے بھارت کو خط لکھا 7 ستمبر کو جواب آیا۔
بھارت کی جانب سےایک اعتراض آرڈیننس پر اٹھایا گیا،۔ ایک اعتراض یہ کہ پاکستانی کورٹ کے سامنے پیش ہونا خود مختاری کےخلاف ہے۔

اٹارنی جنرل کے مطابق بھارت یہ کیس نہیں لڑنا چاہتا۔ وفاقی حکومت نے کلبھوشن یادیو کیلئے وکیل مقرر کرنے کیلئے عدالت سے رجوع کیا۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ اس کیس میں ایک زندگی شامل ہے کلبھوشن کو شفاف ٹرائل کا موقع ملنا چاہیے۔ کیا عدالت خود سے کیس کی کارروائی آگے بڑھا سکتی ہے؟

عدالت نے استفسار کیا کہ بھارتی حکومت اور کلبھوشن یادیو کی مرضی کے علاوہ وکیل مقرر کرنا فائدہ مند نہیں۔ عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر مکمل عملدرآمد کرانا مقصد ہے۔ یہ اس نوعیت کا پہلا کیس نہیں ہوگا اسی طرح کے کیسز پر فیصلے موجود ہوں گے۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ہم نے اپنی ذمہ داری پوری کردی، آئین بھی صاف شفاف ٹرائل کا حق دیتا ہے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ بھارت کو مواقع دیے، لیکن بھارت ہچکچاہ رہا ہے۔ وکیل مقرر کرنے سے پہلے معاونت کی ضرورت ہے۔
وفاقی حکومت پر اس کیس میں کیا ذمہ داری عائد ہوتی ہے؟

اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کے دو مرحلے ہیں۔ پہلا مرحلہ وکیل مقرر کرنا دوسرا مرحلہ وکیل کا اپیل دائر کرنا ہے عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کا کیس عدالت میں پیش کروں گا تاکہ سمجھنے میں آسانی ہو،۔ ہمیں تین سے چار ہفتے کا وقت چاہیے ہو گا۔

جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ یہ کلبھوشن یادیو کے حق زندگی کا کیس ہے۔ عدالت یقینی بنائے گی کہ کلبھوشن یادیو کا حق زندگی بھی محفوظ بنایا جا سکے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے کیس کی سماعت 9 نومبر تک ملتوی کر دی

اس سے قبل اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کیلئے وکیل مقرر کرنے کی درخواست میں 2 وکلا نے عدالت کی معاونت کرنے سے انکار کردیا ہے۔

سنیئر وکلا مخدوم علی خان اور عابد حسن منٹو نے اپنے جواب عدالت میں جمع کردیے اور دونوں نے عدالت کی معاونت کرنے سے معذرت کردی۔

دونوں وکلا نے پروفیشنل وجوہات کی بنیاد پر پیش ہونے سے معذرت کی۔ عابد حسن منٹو نے کہا یہ میرے لیےاعزاز کی بات ہے عدالت نے معاون مقرر کیا لیکن میں کچھ سال قبل وکالت سے ریٹائر ہوچکا ہوں۔ اپنی عمر اور جسمانی کمزوری کی وجہ سے پیش ہونے سے قاصر ہوں۔

یہ بھی پڑھیں:کلبھوشن یادیو کیس میں وکیل کے معاملے پر ڈیڈ لاک برقرار

مخدوم علی خان نے اپنے جواب میں کہا کہ عدالتی معاون ہونا میرے لیے باعث فخر ہے لیکن پروفیشنل وجوہات کی بنیاد پر عدالتی معاونت نہیں کرسکتا۔

خیال رہے کہ عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر عملدرآمد کیلئے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی گئی ہے۔ ہائی کورٹ نے دفترخارجہ کو ہدایت کی تھی کہ کلبوشن یادیو کا وکیل مقرر کرنے کیلئے بھارت کے ساتھ رابطہ کیا جائے۔

بھارت کی جانب سے دو بار مناسب جواب موصول نہ ہونے کے بعد گزشتہ سماعت پر ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ بھارت کو ایک اور موقع دے دیتے ہیں تاکہ کوئی شک نہ رہے۔ شفاف ٹرائل کے تقاضے پورے کرنے کیلئے بھارتی حکومت کو ایک اور موقع دیا جانا چاہیے۔

اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نےعدالت کو بتایا تھا حکومت اب بھی یہی چاہتی ہے کہ بھارت یا کلبھوشن خود اپنے لیے قانونی نمائندہ مقرر کریں۔

ذرائع کے مطابق بھارت کلبھوشن یادیو کیلئے اپنا وکیل بھجوانے پر بضد ہے لیکن قانون کے مطابق پاکستان میں رجسٹرڈ وکیل ہی کیس کی پیروی کرسکتا ہے اور پاکستان نے بھارت کو تحریری طورپراس معاملے سے آگاہ کیا تھا۔


متعلقہ خبریں