رقص، طربیہ لمحات کے اظہار کا خوبصورت اور منفرد انداز


کراچی: آج  پاکستان سمیت دنیا بھر میں رقص کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔

بھارت میں دریافت ہونے والی 9000 سالہ قدیم چٹانوں اور 3300 قبل مسیح کے مصری مقبروں سے ملنے والی روغنی تصاویر میں رقص کے مناظر دکھائے گئے ہیں۔

ان قدیم ترین شہادتوں کے باوجود اسے رقص کی ابتدا نہیں کہا جا سکتا بلکہ رقص اور انسان کا تعلق اتنا قدیم ہے کہ مورخین اس کے آغاز کا حتمی دور بتانے سے قاصر ہیں۔

کچھ محققین کا کہنا ہے کہ تحریر کی ایجاد سے قبل انسان داستانوں اور کہانیوں کی نسل در نسل منتقلی کے لئے رقص کا سہارا لیتا تھا۔

بعد میں رقص کو نہ صرف مذہبی حیثیت حاصل رہی بلکہ اسے بعض بیماریوں کے روحانی علاج کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا رہا۔

رفتہ رفتہ رقص اور ثقافت ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہوتے چلے گئے اور اسی لیے آج بھی رقص اپنی قدیم شکل میں ہماری زندگی کا اہم ترین جزو ہے۔

اب بھی ہم فتح ، کامیابی، خوشی و مسرت کے اظہار یا کوئی تہوار منانے کے لیے  رقص یا ناچ  کا سہارا لیتے ہیں۔

پاکستان چونکہ قدیم روایتی اورثقافتی اقدار کا حامل خطہ ہے اس لیے اس کے مختلف علاقے رقص کے حوالے سے اپنی منفرد اور الگ پہچان رکھتے ہیں۔

پاکستان کے مختلف حصوں میں لوک رقص بے حد مشہور ہیں اور ان علاقوں کے باسی اپنے اپنے انداز سے رقص کے ذریعے اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔

اگر بھنگڑے کی بات کی جائے تو یہ صوبہ پنجاب کے لوک رقص میں اہم مقام رکھتا ہے۔

اسی طرح بلوچستان کے روایتی ناچ ‘لیوا’ اور ‘چاپ’  ہر خوشی کے موقع پر کیے جاتے ہیں۔

پاکستان بھر میں شادی بیاہ کی تقریبات لڈی کے بغیر نا مکمل سمجھی جاتی ہیں۔

سمی ڈانس کی ابتدا تو راجستھان سے ہوئی لیکن اب یہ کم و بیش پورے پنجاب کا مقبول رقص ہے۔

روایتی کردار شہزادی سمی کی یاد میں کیے جانے والے اس رقص میں حصہ لینے والے چمکدار کرتے اور لہنگے پہنتے ہیں۔

شادی بیاہ اور خوشی کے موقع  پر کیا جانے والا ایک اور رقص جھومر کہلاتا ہے جس نے پنجاب کے شہر جھنگ سے جنم لیا۔

اس کے علاوہ افغانستان اور پاکستان کے پشتون علاقوں میں عام طور پر رقص ‘اتن’ کیا جاتا ہے جبکہ تلواروں کے ساتھ تیز رفتاری سےکیا جانا والا ناچ ‘خٹک ڈانس’ بھی بے حد مشہور ہے۔

‘چترالی ڈانس ‘ روایتی طور پر خیبر پختونخوا کے علاوہ گلگت بلتستان میں بھی بے حد مقبول ہے۔

‘دھمال’ کو عام طور پر ‘صوفیانہ رقص’ کہا جاتا ہے ، یہ رقص سندھ اور پنجاب کے علاوہ ملک بھر کے مزارات اور صوفیائے کرام کی درگاہوں پرانتہائی سرور و مستی کےعالم میں کیا جاتا ہے۔

‘جھمرو’ اور ‘ہو جمالو’ صوبہ سندھ کے لوک رقص ہیں۔

یہ رقص جنگ جو اور سندھ کے روایتی کرداروں کی ترجمانی کرتے ہیں اورعام طور پر خوشی اور جشن کے مواقع پر کیے جاتے ہیں۔

بعض روایتوں کے مطابق ‘ہو جمالو’ میں 18 ویں صدی کے سندھی جنگجو جمال کی کہانی بیان کی جاتی ہے جس نے غیرملکی حملہ آوروں سے اپنی سرزمین کی حفاظت  کی۔

شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ

”کبھی خاک ہوئے ان قدموں کی، کبھی دل کو بچھا کر رقص کیا
اسے دیکھا خود کو بھول گئے، لہر ا لہرا کر رقص کیا”


متعلقہ خبریں