جسٹس قاضی فائز عیسی کیس: سپریم کورٹ نے نظر ثانی اپیلوں پر بینچ تشکیل دے دیا


اسلام آباد: سپریم کورٹ نے عدالت عظمیٰ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس سے متعلق نظر ثانی اپیلوں پر بینچ تشکیل دے دیا ہے۔

سپریم کورٹ کے جج جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 6 رکنی لارجر بینچ 16 نومبر کو سماعت کرے گا۔

سپریم کورٹ کے جج جسٹس فیصل عرب کی ریٹائرمنٹ کے باعث 6 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا گیا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، ان کی اہلیہ اور مختلف بار کونسلز نے 19 جون کا فیصلہ چیلنج کر رکھا ہے۔

سپریم کورٹ نے 19 جون کو مختصر فیصلہ جاری کیا تھا۔ فیصلے میں ریفرنس کالعدم قرار دے کر جائیدادوں کا معاملہ ایف بی آر کو بھیج دیا گیا تھا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اہل خانہ کی جائیدادوں کا معاملہ ایف بی آر کو بھیجنے کیخلاف نظر ثانی اپیلیں دائر کی گئی تھیں۔ جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس مقبول باقر اور جسٹس یحیٰ آفریدی بینچ میں شامل نہیں ہیں۔

مزید پڑھیں: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے ایف بی آر کے فیصلے کے خلاف اپیل داخل کردی

خیال رہے کہ گزشتہ ماہ سپریم کورٹ نے اپنے تفصیلی فیصلے میں کہا تھا کہ جسٹس قاضی فیض عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس آئیں اور قانون کے خلاف ہے۔

سپریم کورٹ کے جج جسٹس عمر عطا بندیال کی جانب سے 224 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ صدر آئین کے مطابق صوابدیدی اختیارات کے استعمال میں ناکام رہے۔

فیصلے میں کہا گیا تھا کہ  ریفرنس نمبر ایک 2019 کو غیر قانونی قرار دے کر کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔ درخواست گزار کو 17 اگست 2019 کو جاری نوٹس واپس لیا جاتا ہے۔

تحریری فیصلے میں کہا گیا تھا کہ فیصلے کے 7 روز کے اندر ان لینڈ ریونیو کمشنر خود متعلقہ نوٹسز قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ اور بچوں کو جاری کریں۔ ایف بی آر نوٹسز میں جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ اور بچوں سے برطانیہ میں خریدی جائیدادوں کے ذرائع آمدن پوچھے۔

فیصلے میں کہا گیا تھا کہ یہ نوٹسز جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سرکاری رہائش گاہ پر بھیجے جائیں۔ ایف بی آر کے نوٹسز پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ اور بچے متعلقہ تفصیلات پر جواب دیں۔ دستاویزی ریکارڈ کے ساتھ ایف بی آر کو جواب دیے جائیں۔

فیصلے میں کہا گیا تھا کہ اگر کوئی ریکارڈ پاکستان سے باہر کا کہا ہے تو متعلقہ لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ بروقت فراہم کریں۔ انکم ٹیکس کمشنر اپنی کارروائی میں کسی موڑ پر التوا نہ دے۔

تحریری فیصلے میں کہا گیا تھا کہ صدارتی ریفرنس کو تمام وکلا کمیونٹی نے چیلنج کیا۔ ججز کا احتساب جمہوری معاشرے کیلئے ضروری ہے۔ ججز کا قانون کے مطابق شفاف احتساب عدلیہ کی آزادی کو تقویت ملے گی۔ اس سے عوام کا اعتماد بڑھے گا جبکہ قانون کی بالادستی بہتر ہوگی۔

 


متعلقہ خبریں