کراچی: سمندر کنارے پانی کو ترسنے والا شہر


کراچی میں پانی کی عدم فراہمی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ بالخصوص ساحلی علاقوں میں جہاں اس مسئلے کو  کسی بھی سطح پر کبھی بھی کوشش نہیں کی گئی۔

کراچی میں سمندر کنارے موجود آبادیوں میں پانی کی فراہمی کے لئے کوئی نظام سرے سے موجود ہی نہیں۔ نسل در نسل ساحلوں پر بسنے والوں کے لئے  میٹھے پانی کا حصول انتہائی مشکل ہے۔

ساحلی بستی مبارک ولیج میں تو لوگوں کی صبح کا آغاز ہی پانے لانے سے کیا جاتا ہے۔ گاؤں والوں کو روزانہ تقریبا ایک کلو میٹر دور ٹنکی سے پانی لانا پڑتا ہے۔

ہم نیوز کے ساتھ خصوصی بات کرتے ہوئے علاقہ مکینوں نے بتایا کہ ہمارے علاقے میں میٹھا پانی نہیں ہے، ہمیں روزانہ دور جا کر پانی جمع کرنا پڑتا ہے۔

صرف مبارک ولیج ہی نہیں گوٹھ راس مورائی، بابا آئی لینڈ، صالح آباد، ابرہیم حیدری اور ریڑھی گوٹھ تک پھیلی ساحلی بستیوں میں پانی کی فراہمی کا کوئی نظام سرے سے موجود نہیں۔

ساحلی بستیوں کے مکین دن بھر پانی کے حصول کے لئے کئی کئی کلو میٹر پیدل سفر کرتے ہیں۔ کچھ بستوں میں ٹینکرز کے ذریعے بھی پانی ذخیرہ کیا جاتا ہے۔

شہر سے فاصلہ زیادہ ہونے کے باعث ایک ہزار گیلن کا ٹینکر 2500 سے 3 ہزار روپے میں ملتا ہے۔ سمندر کے کنارے آباد لاکھوں شہری  پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: انگریز نے کراچی کو پانی کیسے فراہم کیا؟

مذکورہ علاقے کہنے کو سمندر کے پاس ہے لیکن پانی کی بوند بوند کو ترستے ہیں۔ علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ پانی فراہم  کرنے کا کبھی حکومت نے نہیں سوچا۔ ووٹ لینے کے بعد کوئی سیاستدان دوبارہ واپس نہیں آتا۔

کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے ایم ڈی اسد اللہ نے ہم نیوز کو بتایا کہ شہرکے 55 فیصد علاقے پانی کی کمی کا سامنا کررہے ہیں۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ کے فور منصوبے کےساتھ ہی ساحلی علاقوں کو بھی پانی کی فراہمی کے منصوبوں پر کام شروع ہو چکا ہے۔

سال2006 میں اس وقت کے ناظم کراچی مصطفیٰ کمال نے 45 کلو میٹر طویل ساحلی  پٹی  پر موجود بستیوں کو پانی کی فراہمی کا کام  شروع کیا تھا۔

منصوبے کے تحت بابا آئی لینڈ اور یونس آباد میں پانی کی فراہمی کے لئے پائپ لائن بچھائی گئی تھی لیکن بعد ازاں یہ منصوبہ سرخ فیتے کی نظر ہوگیا۔


متعلقہ خبریں