بھارت میں سابق امریکی صدر باراک اوبامہ کیخلاف مقدمہ درج


نئی دہلی: جھوٹ، الزام تراشی، سازشوں، ریاستی دہشتگردی کا پرچار کرنے والا بھارت سابق امریکی صدر براک اوبامہ کی کتاب پر سیخ پا ہوگیا۔

باراک اوباما کی نئی کتاب ’’اے پرامسڈ لینڈ ‘‘میں لکھے حقائق، بھارتیوں کو برے لگنے لگے اور  بھارتی وکیل گیان پرکاش شکلا نے سابق امریکی صدر کیخلاف مقدمہ درج کرا دیا ۔

بھارتی وکیل نے موقف اختیار کیا ہے کہ براک اوباما نے قلم بند کی گئی اپنی یادداشت میں بھارتی رہنماؤں کی توہین کی ہے۔

بھارتی پولیس سابق امریکی صدر سے بھارتی سیاستدانوں کی توہین کی تحقیقات کرے۔

بھارتی وکیل نے الزام عائد کیا کہ باراک اوباما نے بھارتی سیاستدانوں کے چاہنے والوں کے جذبات مجروح کیے ہیں۔

بھارتی ریاست اتر پردیش کی لال کنج سول عدالت میں یکم دسمبر کو مقدمے کی سماعت ہو گی۔

خیال رہے کہ اپنی خود نوشت’’اے پرامسڈ لینڈ‘‘ میں براک اوباما نے دورہ بھارت کے دوران سابق بھارتی وزیراعظم من موہن سِنگھ سے ملاقات کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ گانگریس کے دور حکومت میں بھارت میں بڑھتے ہوئے مسلم مخالف جذبات نے ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو مضبوط کیا، اس وقت بی جے پی اپوزیشن کی مرکزی جماعت تھی۔

اوبامہ نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ من موہن سنگھ کا کہنا تھا کہ بھارت میں کسی غیر یقینی صورتحال میں مذہبی اور نسلی یکجہتی کا غلط استعمال بھارتی سیاستدانوں کیلئے مشکل نہیں ہے۔

مزید پڑھیں: بھارت: انتہا پسندی، اداکار راجپال یادیو نے خطرے سے آگاہ کردیا

براک اوباما نے کہا کہ جنونیت اور انتہا پسندی بھارتی معاشرے میں سرکاری اور نجی سطح پر گہرائی تک سرائیت کر چکی ہے۔ پاکستان دُشمنی بھارت میں قومی یکجہتی اُجاگر کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔

کتاب کے صفحہ نمبر 600 اور 601 میں اوباما نے لکھا ہے کہ مجموعی طور پر بھارتی معاشرہ نسل اورقوم پرستی کے گرد مرکوز ہے۔۔ معاشی ترقی کے باوجود، بھارت ایک منتشر اور بے حال ملک ہے۔ بھارت بُنیادی طور پر مذہب اور قوم میں بٹا ہوا ہے۔ بھارت بدعنوان سیاسی عہدے داروں، تنگ نظر سرکاری افسروں اور سیاسی شعبدہ بازوں کی گرفت میں ہے۔

اوبامہ نے کتاب میں مزید لکھا ہے کہ انتہا پسندی، جنونیت، بھوک، بدعنوانی، قومیت، نسلیت اور مذہبی عدم رواداری اتنی پھیل چکی ہے کہ کوئی بھی جمہوری نظام اس کو مستقل طور پر جکڑ نہیں سکتا۔۔ یہ تمام مسائل اگر وقتی طور پر قابو ہو بھی جائیں تو معاشی ترقی کی رکاوٹ یا آبادیاتی تبدیلی یا کسی طاقتور سیاسی رہنما کے ہوا دینے پر لوگ دوبارہ انتہا پسندی اور سر کشی کی نظر ہو جاتے۔

 


متعلقہ خبریں