دباؤ میں آؤں گا نہ کسی کو این آر او دوں گا، وزیراعظم کا دوٹوک اعلان


اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ اگر اپوزیشن والے اگر یہ سمجھ رہے ہیں کہ جلسے سے میرے اوپر کوئی پریشر بڑھ جائے گا تو یہ بڑی غلط فہمی ہیں، یہ جو مرضی کریں، کسی کو این آر او نہیں ملے گا۔ 

ہم نیوز نیٹ ورک کے لیے حمزہ علی عباسی کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ اپوزیشن کا اتحاد  یونین آف کروکس (Union of crooks) ہے۔ عمران خان نے کہا کہ مجھے کرسی چھوڑنے پڑی تو چھوڑ دوں گا لیکن ملک سے غداری نہیں کروں گا۔

انہوں نے کہا کہ بے شک یہ جلسہ کریں  لیکن کورونا میں یہ لوگوں کی جانیں خطرے میں ڈال رہے ہیں، جلسہ کرنے والے آرگنائزر ہیں، انہوں نے کرسیاں دی ہیں۔ ٹراسنپورٹ دیا ہے، ان سب پر ایف آئی آر درج ہوگی۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ یہ لاہور جلسہ کرنے جا رہے ہیں، لاہور میں تیزی سے کورونا کیسز بڑھ رہے ہیں۔ پرسوں ہمارے 78 لوگ کورونا سے جاں بحق ہوئے۔ گزشتہ روز 54 افراد فوت ہوئے ہیں۔ کیسز ہمارے بڑھتے جارہے ہیں۔ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ان کو بالکل اجازت نہیں دیں گے۔ جو بھی لاہور جلسے میں ساونڈ سسٹم لگائے گا اور جو بھی کرسیاں لگائے گا، سب پر ایف آر درج ہوگی۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ لیکن ہم انہیں وہاں جانے سے نہیں روکیں گے۔ ہم کوئی رکاوٹیں کھڑی نہیں ہونگی تاکہ یہ ڈرامے نہ کریں۔ کوئی انقلابی نہ بنیں، یہ کوئی چی گویرا نہ بنیں۔ یہ سب چوری بچانے کیلئے جلسے کر رہے ہیں۔ ہم نے کہا یہ کریں۔ جو جو یہ قانون کی خلاف ورزی کریں گے ان کے خلاف مقدمات درج ہوں گے۔ لیکن ہم روکاوٹیں پیدا نہیں کریں گے۔ تاکہ ڈرامے نہ کریں۔ تاکہ یہ انقلابی نہ بنیں، پتہ نہیں کیا کردیتے۔

انہوں نے کہا کہ دو ڈھائی ہفتے پہلے ہم نے اپنے تمام جلسے منسوخ کیے ہیں۔ ہماری پارٹی اور حکومت کو جلسہ کرنے کی اجازت نہیں ہے، صرف 300 لوگوں کو اجازت ہے، لیکن آگے چل کر وہ بھی دیکھیں گے کہ صورت حال خراب ہوئی تو روک دیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے ریسٹورنٹ بند کرکے کہا کہ آپ باہر بیٹھ سکتے ہیں۔ شادی بیاہ کی تقریبات بند کردی ہیں، اب لوگوں کو اس سے تکلیف ہو رہی ہے۔ یہ الٹا ہمیں کہہ رہے ہیں یہ جلسے کر رہے ہیں ہمارا روزگار بند ہو رہا ہے۔ ایس او پیز پر پورا زور لگا رہے ہیں۔ علما سے بھی کہا ہوا ہے، اسکول بند کردیے ہیں، تیزی سے کورونا کے کیسز بڑھ رہے ہیں۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ  تیس سال سے یہ دو جماعتیں اقتدار میں ہیں۔ پہلے انہوں نے گیارہ سال ایک دوسرے کو کرپٹ کہا۔ دو مرتبہ کرپشن پر فارغ ہوئے، پھر یہ جنرل مشرف نے انہیں این آر او دے دیا، نواز شریف کو سعودی عرب بھیج دیا، حدبیبہ پیپر کیس بڑا واضح تھا، اس کو بند کردیا۔

انہوں نے کہا کہ زرداری کو ساٹھ ملین ڈالر پڑے ہوئے تھے، ایک ارب روپے خرچ کیے تھے سوئٹزرلیند میں، وہ سب کیسز بند ہوگئے، اس کا نتیجہ کیا ہوا 2008 میں پاکستان کی تاریخ  کا قرضہ تھا چھ ہزار ارب روپے ، 2018 میں 30 ہزار ارب روپے قرض بن گیا۔ ان دس سالوں میں چار گناہ زیادہ قرضہ بن گیا اور یہ دو اقتدار میں تھے۔ اب یہ وہ کہہ رہے ہیں میں انہیں مشرف والا این آر او دوں، اس سے بڑھ کر ملک سے غداری کیا ہوگی؟۔ مشرف نے اپنی کرسی بچانے کیلئے ان کو این آر او دیا۔

عمران خان نے کہا کہ جس دن سے ہماری پارلیمنٹ شروع ہوئی ہے، اپوزیشن ہمیں بولنے ہی نہیں دیتی، کیوں نہیں بولنے دیتی، ان کو کوئی دلچپسی نہیں کہ ملک کے کیا ایشوز ہیں، صرف ایک ایشو ہے کہ عمران خان ان کو این آر او دے دے۔ جو انہوں نے چوری کی، اس سے بچا لے۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ کتنا ملک کا فائدہ ہوسکتا ہے کہ اگر ارکان پارلیمنٹ تیاری کرکے آئیں، اتفاق رائے پیدا کریں کویڈ 19 پر پالیسی پر ڈبیٹ کریں، خارجہ پالیسی پر بات کریں، بحث سے تھاٹ پراسس آگے جاتا ہے، ہماری حکومت کا فائدہ ہوسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ وقفہ سوال میں ایک گھنٹے تک جواب دوں گا، جو مرضی سوال کریں، وہ کیوں نہیں ہوسکتا،؟ آپ جو مرضی کرلیں وہ آجاتے ہیں این آر او پر، وہ کہتے ہیں کہ پہلے ہمارے کرپشن کے کیسز معاف کرو تو آگے بات ہوگی، وہ پارلیمنٹ کیسے چل سکتی ہے؟

انہوں نے کہا کہ جب تک ایک معاشرہ چوروں اور عام لوگوں میں فرق نہیں کرے گا، جو قرآن مجید کہتا ہے، یہ برابر نہیں ہیں، آپ ان کو برابر کردیتے ہیں، وہ ہر روز ایک شخص ٹاک شو پر بیٹھا ہوتا ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ معاشرے کی برائی کو اچھائی بنا کرپش کیا جائے تو وہ پھیل جاتی ہے، اسطرح وہاں برائی پھیلی اور خاندانی نظام تباہی کی طرف گیا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمیں علامہ اقبال جیسے جینئیس مائنڈ کی تعلیمات کی طرف جانا ہوگا، ہمارے پاس دو راستے ہیں، اچھائی یا برائی کا راستہ، گلیمر ہمیں مرغوب تو ہوتا ہے مگر اسکے پیچھے جاکر دیکھیں تو وہ تباہی ہے۔

پروگرام کے شروع میں انہوں نے کہا کہ میرا زندگی کا تجربہ باقیوں سے بڑا مختلف ہے، جس طرح میں نے زندگی گزاری شاید ہی کسی کو ایسی زندگی گزارنے کا موقع ملا ہو۔

ہم نیوز نیٹ ورک کے لیے حمزہ علی عباسی کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ  میں نے کرکٹ شروع کی اور 18 سال کی عمر میں انگلینڈ چلا گیا۔ پڑھائی کی، یونیورسٹی گیا گرمیوں میں وہاں کرکٹ کھیلتا تھا اور سردیاں پاکستان میں گزارتا تھا۔ اس سے مجھے تجربہ ہوا دو مختلف کلچرز کو قریب سے دیکھنے کا۔

عمران خان نے کہا کہ پاکستان میں پلا بڑھا اور انگلینڈ میں کرکٹ کھیلی۔ مغربی کلچر کو میں نے اندر سے دیکھا۔ یونیورسٹی ایجوکیشن سے میرے اندر تبدیلی آئی۔ شروع میں کسی کتاب یا انسان نے مجھے متاثر نہیں کیا۔ جو میں دو کلچرز کو دیکھتا رہا اور جائزہ لیا تو اس سے جو میں نے سیکھا اس سے تبدیلی آئی۔

مزید پڑھیں: این آر او کا حق وزیر اعظم کے پاس نہیں ہے، شاہد خاقان عباسی

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کسی زمانے میں غلامی کا دور تھا، اب ذہنی غلامی کا دور ہے، جوغلام بناتے ہیں وہ آپ کو نیچ سمجھتے ہیں۔

اپنے زمانہ طالب علمی سے متعلق انہوں نے بتایا کہ زمانہ طالب علمی میں ہمیں اردو بولنے کی آزادی نہیں تھی ، پہلے چار پانچ فیصد لوگ انگریزی میڈیم میں تعلیم حاصل کرتے تھے۔ ایلیٹ کلبوں میں 1974 تک پاکستانی لباس پر بھی پابندی تھی۔

وزیراعظم نے بتایا کہ ہمیشہ اپنی زندگی کا جائزہ لیتا ہوں اسی لئے کامیاب ہوتا ہوں ، کرکٹ میں بھی جب تک کارکردگی سے متعلق سوچتا نہیں تھا سوتا نہیں تھا۔

انہوں نے بتایا کہ میں مسلسل اپنی زندگی کا جائزہ لیتا آیا ہوں، میں نے معاشرے کو اس طرح دیکھا جس طرح لوگوں کو موقع نہیں ملتا۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ جب میں بڑا ہو رہا تھا تو انگریزوں کا بڑا مضبوط اثر رسوخ تھا۔ پاکستان میں اب مختلف قسم کا اثر رسوخ ہے اس وقت ایک غلامی کا تاثر تھا، اب آپ کہ سکتے ہیں کہ ذہنی طور پر غلامی سے ابھی ہم باہر نہیں نکلے۔ ہمارے معاشرے میں خود کو کم تر سمجھنے کا تاثر تھا۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ کالونیل ازم میں جو سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ جس کو غلام بناتے ہیں وہ خود کو کمتر سمجھتا ہے اور غلام بنانے والا خود کو برتر تصور کرتا ہے۔ اس طرح آپ کا رویہ بھی اسی لیول پر چلا جاتا ہے۔ حالانکہ آپ ان کو برا بھی سمجھتے ہیں لیکن ان سے متاثر اتنے ہوتے ہیں کہ ان کی طرح بننا چاہتے ہیں۔


متعلقہ خبریں