فیس بک کا دوہرا معیار: بھارتی بجرنگ دل کے حوالے سے نرم رویہ

فیس بک کا دوہرا معیار: بھارتی بجرنگ دل کے حوالے سے نرم رویہ

اسلام آباد: سماجی رابطے کی معروف ویب سائٹ فیس بک کے دوہرے معیار کے حوالے سے ایک مرتبہ پھرانتہائی سنجیدہ نوعیت کے سوالات اٹھائے گئے ہیں۔

بھارت: اسلام مخالف مواد کو بڑھاوا دینے والی فیس بک کی پالیسی سربراہ مستعفی

ہم نیوز نے مؤقر امریکی اخبار ’وال اسٹریٹ جرنل‘ میں شائع شدہ ایک خصوصی رپورٹ کے حوالے سے بتایا ہے کہ فیس بک انتظامیہ بھارت میں تشدد پسند جنونی ہندوؤں کی جماعت بجرنگ دل کے خلاف کارروائی سے اجتناب کرتی ہے۔

امریکی اخبار کے مطابق فیس بک انتظامیہ کا رویہ بجرنگ دل کے حوالے سے انتہائی نرم ہے جب کہ وہ بھارت میں مقیم اقلیتوں کو بطور خاص نشانہ بناتی ہے اور انہیں نشانہ بنائے جانے کے عمل کی تائید و حمایت بھی کرتی ہے۔

بھارتی ذرائع ابلاغ میں شائع شدہ رپورٹ میں کے مطابق محض اپنے کاروبار اور ملازمین کی سیکورٹی کو یقینی بنانے کے لیے فیس بک انتظامیہ کا رویہ بھارت میں مقیم بجرنگ دل کے لیے انتہائی نرم ہے۔

وزیراعظم کا اسلام مخالف مواد پر پابندی کیلئے فیس بک کے سربراہ کو خط

فیس بک انتظامیہ نے بھارت میں مقیم اقلیتوں کے خلاف پرتشدد کارروائیوں کی حمایت کرنے والی خطرناک تنظیم بجرنگ دل کو حیرت انگیز طور پر سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر برقرار رہنے کی اجازت دی ہوئی ہے۔

فیس بک انتظامیہ کے دوہرے معیار کے حوالے سے ماضی میں بھی متعدد سوالات اٹھائے جا چکے ہیں۔

پاکستان: امریکی اقدام یکسر مسترد

وال اسٹریٹ جرنل میں شائع شدہ خصوصی رپورٹ کے مطابق جون 2020 میں انتہا پسند ہندوؤں کی جماعت بجرنگ دل کے درجنوں کارکنان نے نئی دہلی کے ایک چرچ پر یہ کہہ کر حملہ کیا کہ وہ ایک مندر کی جگہ پر تعمیر کیا گیا ہے۔

حملہ آوروں نے چرچ پر اپنا مذہبی نشان آویزاں کیا اورعلی اعلان اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے باقاعدہ سوشل میڈیا پر ویڈیو بھی ڈالی جسے کم از کم ڈھائی لاکھ افراد نے دیکھا لیکن فیس بک انتظامیہ کی جانب سے اس سلسلے میں کسی بھی قسم کی کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔

فیس بک نے قوانین کی خلاف ورزی پر 10 لاکھ گروپس کو ہٹا دیا

مؤقر امریکی اخباروال اسٹریٹ جرنل کے مطابق سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک کی سیکیورٹی ٹیم نے سال رواں میں تیار کردہ اپنی رپورٹ میں واضح طور پر کہا تھا کہ بھارت میں مقیم بجرنگ دل پورے ملک میں آباد اقلیتوں کے خلاف پرتشدد کارروائیوں کی حمایت کرتی ہے جس کی وجہ سے اس انتہا پسند تنظیم کو ’خطرناک‘ قرار دے کر پابندی عائد کی جانی چاہیے لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔


متعلقہ خبریں