’سینیٹ الیکشن قبل از وقت ہو سکتے ہیں تو قومی اسمبلی کے کیوں نہیں؟‘


حیدرآباد: جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ اگر سینیٹ کے الیکشن قبل از وقت کرائے جانے کی بات کی جارہی ہے تو پھر قومی اسمبلی کے انتخابات بھی قبل از وقت ہونے چاہئیں۔

حیدرآباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم میں کوئی فرق نہیں ہے، پی ڈی ایم میں بھی وہی جماعت شامل ہیں جنہوں نے 73 سال ملک میں حکومت کی اور یہ بھی ان حالات کے ذمہ دار ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سینیٹ کے انتخابات معمول کے مطابق تو مارچ میں ہونا چاہئیں، سینیٹ کے انتخابات کا طریقہ کار تبدیل کرنے کی اشد ضرورت ہے ، ہم چاہتے ہیں کہ یہ انتخابات متناسب نمائندگی کی بنیاد پر کرائے جائیں۔

انہوں نے کہا کہ ماضی میں ہم نے دیکھا ہے کہ اسمبلی میں خریدوفروخت کی جاتی تھی اس بار حکومت اسی لئے شو آف ہینڈ پر زور دے رہی ہے ان کو یقین ہے کہ ان کے اپنے ممبران بھی ان کو ووٹ نہیں دیں گے۔ ان کے اپنے ممبران بھی حکومت کو سپورٹ نہیں کررہے اور ممبران کو وزیراعظم اور حکومت پر اعتماد نہیں رہا یہی وجہ ہے کہ حکومت شو آف ہینڈ کی بات کررہی ہے لیکن اس پورے طریقہ کار کو تبدیل ہونا چاہئے۔

آئندہ انتخابات میں یوتھ کے ذریعے سرپرائز دیں گے، سراج الحق

سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ اگر سینیٹ کا انتخابات قبل از وقت کرانے پر حکومت زور دے رہی ہے تو پھر قومی اسمبلی کا الیکشن بھی قبل از وقت کیا جانا چاہئے کیونکہ پوری حکومت پر لوگوں کا اعتماد ختم ہوگیا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کی حکومت نے 950 دنوں میں ملک کو دلدل میں ڈال دیا ہے ، ہم چاہتے ہیں کہ شفاف انتخابات کا انعقاد جمہوریت کی بقاء کیلئے ضروری ہے اور اس کیلئے تمام سیاسی جماعتوں کے درمیان ڈائیلاگ ہونا چاہئے ، اگر جمہوریت پر اعتماد کو بحال کرنا ہے تو انتخابات شفاف ہونا چاہئے۔

ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم میں کوئی فرق نہیں ہے ، پی ڈی ایم میں بھی وہی جماعت شامل ہیں جنہوں نے 73 سال حکومت کی اور بار بار اقتدار میں آتی ر ہیں، پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نے بار بار حکومت کی اسی طرح جرنلوں نے بھی بار بار حکومت کی۔

انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم کے درمیان اختلافات پالیسیوں پر نہیں ہے امریکی غلامی، ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف سے قرضوں پر یہ سب متفق ہیں، تعلیمی پالیسی، کشمیر پالیسی پر اختلاف نہیں اسی طرح گلگت کو صوبہ بنانے کی پالیسی پر بھی اختلاف نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اختلاف اس چیز پر ہے کہ کل تک جو اسٹیبلشمنٹ کی دودھ کی بوتل تھی وہ ان کے منہ میں تھی آج کسی اور کے منہ میں ہے اس لئے صرف دودھ کی بوتل کی لڑائی ہے یہ عوام کے حقوق کیلئے لڑائی نہیں کر رہی ہے۔


متعلقہ خبریں