نابینا افراد کو تعلیم سے آراستہ کرنے میں ’بریل‘ کی اہمیت سےانکار نہیں

نابینا افراد کو تعلیم سے آراستہ کرنے میں ’بریل‘ کی اہمیت سےانکار نہیں

فوٹو: فائل


لاہور: نابینا افراد کو تعلیم سے آراستہ کرنے میں ’بریل‘ کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ 

بریل الفاظ کا وہ بورڈ ہے جسے چھو کر بصارت سے محروم افراد لکھتے ہیں اور پڑھ بھی سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پہلے نابینا جج، 3 ماہ میں 20 مقدمات کے فیصلے سنا دیے

علم ہی وہ شمع ہے جس کی روشنی ایک مہذب معاشرے کی ضمانت ہے مگر جن آنکھوں میں نور ہی نہیں ان کو روشنی سے کیا مطلب، اسی لیے تو نابینا افراد کے لیے بریل کے فریم کو ہی علم کی شمع کا درجہ دیا جاتا ہے۔

پلاسٹک کا بریل فریم دو حصوں پر مشتمل ہوتا ہے جس کی بیرونی سطح پر چھ چھ پوائنٹس پر مبنی سیل ہوتے ہیں جبکہ اندرونی سطح پر دبیز کاغذ کا پرت ہوتا ہے۔

بریل کا ہر پوائنٹ مختلف الفاظ کی نشاندہی کرتا ہے جس کو سٹائلس نامی پن کی مدد سے دبانے کی صورت میں کاغذ پر الفاظ ابھر آتے ہیں۔

بریل کے ابتدائی خدوخال پہلی جنگ عظیم میں سامنے آئے جب جاسوسی کے لیےایسا خط ایجاد کیاگیا جس میں لکھنے کی بجائےکاغذ پرپن کی مدد سے الفا ظ کھودے جاتے اور ہاتھوں کے پوروں سے چھو کر پڑھے جاتے تھے۔

اس کو نابینا افراد کےلیے ذریعہ تعلیم 1928 میں فرانس کے لوئی بریل نے بنایا جو خود بھی چھوٹی عمر میں ہی بینائی جیسی نعمت سے محروم ہو گئے تھے۔

آج بریل کا فریم دنیا بھر میں ایک سو تیس سے زائد زبانوں میں دستیاب ہے جو بصارت سے محروم اسپیشل افراد کولکھنے کےقابل بنارہاہے۔

یہ بھی پڑھیں: دلوں کو چھو لینے والی آواز کا مالک اسکردو کا نابینا گلوکار

جی سی یونیورسٹی لاہورسمیت کئی اداروں میں طلبا کو باقاعدہ اس فریم پر لکھنے کی عملی مشق بھی کروائی جارہی ہے تاکہ آنکھوں جیسی نعمت سے محروم افراد بھی معاشرے کا فعال رکن بن سکیں۔


متعلقہ خبریں