کامیابی کیلئے سلطانہ صدیقی نے کون سے گُر اپنائے؟

ہم ٹی وی نیٹ ورک کی بانی و صدر سلطانہ صدیقی کا یہ انٹرویو بی بی سی نے اپنی ’دی باس‘ سیریز کیلئے لیا

ہم ٹی وی نیٹ ورک کی بانی و صدر سلطانہ صدیقی کا یہ انٹرویو بی بی سی نے اپنی ’دی باس‘ سیریز کیلئے لیا


بی بی سی کی ‘دی باس’ سیریزمیں کامیاب کاروباری شخصیت کے حالات زندگی پر نظر ڈالتے ہوئے ان سے بات چیت کی جاتی ہے۔ اس بار’دی باس‘ کیلئے ’ہم‘ ٹی وی نیٹ ورک کی بانی و صدر سلطانہ صدیقی سے ان کی کامیابی کے  متعلق بات چیت کی گئی۔ بشکریہ بی بی سی اردو

کامیابی کیلئے سلطانہ صدیقی نے کون سے گر اپنائے؟

انہوں نے سنہ 1974 میں سرکاری ٹی وی چینل پی ٹی وی سے کریئر کا آغاز کیا، پھر پرائیویٹ پروڈکشن اور پھر پاکستان کا پہلا ایسا انٹرٹینمنٹ چینل بنایا جو سٹاک مارکیٹ میں بھی مندرج ہے۔

ان کا چینل ہم ٹی وی پاکستان کے سب سے بڑے براڈکاسٹنگ برانڈز میں شامل ہے اور ایشیا سمیت دنیا میں ہر جگہ اردو ڈرامے کے مداح اس کے ناظرین میں شامل ہیں۔ ہم نیوز، ہم مصالحہ، ہم ستارے کے علاوہ ہم مارٹ اور پی آر اور فلم پروموشن کے کئی منصوبے بھی سلطانہ صدیقی کے کاروباری سفر کا حصہ ہیں۔

پہلا کاروبار ٹی وی نہیں تھا

پاکستان میں ضیا الحق کا دور کئی پابندیوں کے باعث انٹرٹینمنٹ کے لیے سازگار دور نہیں تھا لیکن اس دور میں بھی سلطانہ صدیقی نے بیلٹ باکس کے ٹھیکے کا بزنس کیا۔

یہ بھی پڑھیں: ہم نیٹ ورک کی صدر سلطانہ صدیقی کیلئے ستارہ امتیاز کا اعلان

بی بی سی اوردو کو انٹرویو کے دوران انہوں نےبتایا کہ وہ کئی قسم کے کاموں میں سرمایہ کاری کرتی رہیں۔ ان میں انڈنٹنگ کا کام اور بھاری مشینری کی فروخت کا کام بھی شامل ہے۔ وہ یہ کام دوسری کمپنیز کے ساتھ مل کر بھی کرتی رہیں۔

فوٹو: بشکریہ بی سی سی

ان کا کہنا تھا کہ  ڈپریشن کے دور میں ماں، بھائیوں اور گھر کے ترقی پسند ماحول نے ہمت بندھائی اور اس دوران پی ٹی وی پر آسامیاں بھی آ گئیں۔ سنہ 1974 میں پی ٹی وی میں بطور پروڈیوسر کام کا آغاز کیا۔ کئی پروگرامز کی پروڈکشن کے بعد موسیقی کے معروف پروگرامز کیے اور ڈرامہ سیریل ’ماروی‘ نے انھیں کافی معروف کر دیا۔

ملازمت کرنے سے لے کر ایک چینل میں ملازمتیں دینے تک کا سفر کیسا تھا؟

ایک قد آور کاروباری شخصیت سے بالعموم یہ سوال کرنے پر محدود سرمایہ، کاروباری پالیسیاں، ملازمین کی بھرتیوں، ملکی معاشی مسائل، بینکوں کی شرائط، جیسے الفاظ سننے کو ملتے ہیں، لیکن سلطانہ صدیقی نے اس کے جواب میں کہا کہ ان کے لیے عورت ہونا ہی بڑا چیلنج تھا۔

’عورت ہونا ہی بڑا چیلنج تھا، آپ نیزے کی نوک پر چل رہی ہوتی ہیں۔‘

ان کے مطابق عورت کو آپ کو ہر وقت اپنا آپ ثابت کرنا ہوتا ہے۔ عورت کسی سے بات بھی کر لے تو اعتراض ہوتا ہے۔ کسی دفتر میں کام سے جانا مشکل ہے۔ کام کے ساتھ یہ بھی ثابت کرنا ہوتا ہے کہ آپ بہترین ماں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ عورت کو مرد کی ضرورت رہتی ہے، چاہے وہ باپ ہو، بھائی ہو یا بیٹا ہو۔

سلطانہ صدیقی کے لیے یہ سب یوں ممکن ہوا کہ ان کے خاندان نے ان کا بھرپور ساتھ دیا اور پھر انھوں نے دفتر بھی گھر پر ہی بنا لیا تاکہ بچے بھی نظر انداز نہ ہوں۔

ایسا کیا تھا جو سلطانہ صدیقی کو نہیں آتا تھا؟

سلطانہ صدیقی نے پی ٹی وی میں کام کے دوران ہی پرائیویٹ پروڈکشنز بنانی اور بیچنی شروع کیں۔ اس وقت وہ واحد خاتون تھیں جو یہ کام کر رہی تھیں۔ تب انھوں نے سان فرانسسکو میں جا کر ڈرامہ شوٹ کیا جو بڑی بات تھی۔

ان کا کہنا ہے کہ وہ مارکیٹنگ اور فنانس میں کمزور تھیں تو تب اُنھوں نے ایور ریڈی جیسی کمپنیز کے ساتھ کام کیا۔ پھر ان کے بیٹے درید اور بہو مومل نے ان کے ساتھ مل کر یہ ذمہ داری بانٹ لی۔ اور پاکستان میں پرائیویٹ چینلز آنے کے بعد بیٹے کے ساتھ مل کر چینل شروع کر لیا۔

سلطانہ صدیقی کے ڈراموں میں ان کے اپنے جیسے کردار کیوں نظر نہیں آتے؟

سلطانہ صدیقی کہتی ہیں وہ خود یہ سوچتی ہیں کہ ایسی عورت سکرین پر کیوں نہیں ہے۔ پھر  انہوں نے مثال دیتے ہوئے ’کنکر‘ اور ’زندگی گلزار ہے‘ جیسے ڈراموں کا ذکر کیا جہاں ساس روایتی تھی نہ بہو، اور ان کے مطابق اور بھی کئی ایسے ڈرامے ہیں جہاں وہ عورت کو بالآخر اپنے لیے لڑتا ہوا دکھاتی ہیں۔

خواتین کو مضبوط بنانے کے ضمن میں ہم ٹی وی میں خواتین کو ملازمتیں دینے کی پالیسی کا بھی بتایا جہاں اُن کے مطابق 30 فیصد ملازمتیں خواتین کو دینے کی پابندی ہے۔

خود فیصلے لینے، اپنے اور سینکڑوں دوسرے لوگوں کے حالات بدلنے والی عورت، جو عمر کی اس دہلیز پر ہے جسے ریٹائرمنٹ کی عمر سمجھا جاتا ہے لیکن وہ کہتی ہے ’ابھی تو سفر کا آغاز ہوا ہے۔‘

ڈراموں کی رائیلٹی پر پروڈیوسر کی اجارہ داری کیوں ہے؟

سلطانہ صدیقی کا اس کے جواب میں کہنا ہے کہ وہ رائیلٹی کے اس حق کو تسلیم کرتی ہیں۔ اُن کے مطابق اس کے لیے معاہدہ طے کرتے ہوئے بات کر لینی چاہیے اور معاوضہ اسی حساب سے مانگنا چاہیے۔

 


متعلقہ خبریں